(آیت 12) ➊ قُلْ لِّمَنْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ …: وعظ و نصیحت اور ڈرانے کے بعد انھی تینوں اصولوں (کائنات کی ابتدا، اسے دوبارہ زندہ کرنے اور انبیاء کی نبوت) کو ثابت کرنے پر دلیل قائم کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ ان کافروں سے پوچھیے کہ آسمانوں اور زمین کا مالک کون ہے؟ اس سوال کا مقصد ڈانٹ اور پھٹکار ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ خود ہی جواب دے دیجیے کہ اللہ کے سوا کون ہو سکتا ہے اور یہ جملہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبانی ادا کیا گیا ہے کہ آپ یہ بھی کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم کرنا لازم کر لیا ہے، وہ توبہ واستغفار قبول کرتا ہے اور اسی صفت رحمت کا تقاضا ہے کہ اس نے تمھیں دنیا میں مہلت دی ہے، فوراً نہیں پکڑتا، لیکن قیامت کے دن تم سب کو اکٹھا کرے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس نے اپنے پاس کتاب میں، جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے، اپنے متعلق لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔“[ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالٰی: «ویحذرکم اللہ نفسہ…»: ۷۴۰۴ ]
لیکن یہ رحمت قیامت کے دن صرف اہل ایمان کے لیے ہو گی، کافروں کے لیے اللہ تعالیٰ سخت غضب ناک ہو گا۔ دنیا میں اس رحمت سے مسلم اور کافر، نیک اور بد سب فائدہ اٹھا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ»[ الأعراف: ۱۵۶]”اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے، سو میں اسے ان لوگوں کے لیے ضرور لکھ دوں گا جو ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور (ان کے لیے) جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔“ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱۸) رہا دنیا میں تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: «كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا»[ بنی إسرائیل: ۲۰ ]”ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں، ان کی بھی اور ان کی بھی، تیرے رب کی بخشش سے اور تیرے رب کی بخشش کبھی بند کی ہوئی نہیں۔“
➋ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ …: یعنی قیامت کا آنا ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی سمجھ دار آدمی انکار نہیں کر سکتا، اس سے انکار اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہی جو اپنی عقل و فطرت سے کام نہیں لیتا اور خسارے کے سودے پر اڑا ہوا ہے، نفع کے سودے کی خواہش ہی نہیں رکھتا، حالانکہ اللہ نے فرمایا: «فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ»[ آل عمران: ۱۸۵ ]”پھر جو شخص آگ سے دور کر دیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا۔“