(آیت 112) ➊ اِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ …: حواری اللہ اور رسول پر ایمان رکھتے تھے، جیسا کہ اوپر کی آیت میں مذکور ہے، اس لیے ان کا یہ سوال اللہ کی قدرت پر شک و شبہ کے طور پر نہ تھا، بلکہ دلی اطمینان حاصل کرنے کے لیے تھا، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے مردوں کو زندہ کرنے کے متعلق سوال کیا تھا۔ (ابن کثیر) اور یہ الفاظ کہ کیا تیرا رب یہ کر سکتا ہے، ان کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر ہے، بلکہ مطلب یہ پوچھنا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف تو نہیں، یا اس میں کوئی مانع تو نہیں؟ ”مائدہ“ وہ بڑا تھال جس پر کھانا رکھا ہو۔ اب اس تھال اور کھانے دونوں پر مائدہ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ (راغب)
➋ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ …: کیونکہ ایسے معجزات معین کر کے طلب کرنا حکم چلانے اور سرکشی کرنے کا معنی رکھتا ہے، اس لیے اللہ سے ڈرو اور ایسا سوال نہ کرو۔ (کبیر) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ” ڈرو اللہ سے“ یعنی بندے کو چاہیے کہ اللہ کو نہ آزمائے کہ میرا کہا مانتا ہے یا نہیں، اگرچہ مالک بہت زیادہ مہربانی کرے۔“(موضح) ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے اندر تقویٰ پیدا کرو اور اسے مائدہ حاصل کرنے کا ذریعہ بناؤ، جیسے فرمایا: «وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا(3) وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ» [ الطلاق: ۲، ۳ ]”اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا۔“(ابن کثیر)