(آیت 97) ➊ جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ …: اوپر کی آیت میں محرم کے لیے شکار کو حرام قرار دیا، اب اس آیت میں بتایا کہ جس طرح حرم کو اللہ تعالیٰ نے وحشی جانوروں اور پرندوں کے لیے سبب امن قرار دیا ہے اسی طرح اسے لوگوں کے لیے بھی جائے امن بنا دیا ہے اور دنیوی اور اخروی سعادتیں حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ (کبیر) دیکھیے سورۂ آل عمران (۹۷)، سورۂ قصص (۵۷) اور سورۂ بقرہ (۱۲۵) یعنی اہل مکہ کی معاش (روزی) کا مدار اسی پر ہے کہ لوگ دور دراز سے حج اور تجارت کے ارادے سے یہاں پہنچتے ہیں اور ہر قسم کی ضروریات ساتھ لاتے ہیں، جس سے اہل مکہ رزق حاصل کرتے ہیں اور لوگ یہاں پہنچ کر امن و امان پاتے ہیں، حتیٰ کہ زمانۂ جاہلیت میں بھی حرم کے اندر کوئی شخص اپنے باپ یا بیٹے کے قاتل تک کو کچھ نہیں کہتا تھا اور عبادت و ثواب کے اعتبار سے یہ بہترین جگہ ہے۔ الغرض! یہ تمام چیزیں لوگوں کے قیام کا باعث ہیں۔ (کبیر، فتح القدیر) کعبۃ اللہ لوگوں کے قائم رہنے کا ایک ذریعہ ہے، کیونکہ قیامت کے قریب جب ایک حبشی کعبۃ اللہ کو گرا دے گا تو اس کے بعد بہت جلد قیامت آ جائے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا حبشی گرائے گا۔“[ بخاری، الحج، باب ہدم الکعبۃ: ۱۵۹۶۔ مسلم: ۲۹۰۹ ]
➋ وَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ: حرمت والے مہینے چار ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ ان چار مہینوں میں لوگ امن سے سفر اور تجارت کرتے اور سال بھر کی ضروریات جمع کر لیتے تھے، اس اعتبار سے یہ مہینے بھی گویا لوگوں کی زندگی قائم رہنے کا ذریعہ ہیں۔
➌ وَ الْهَدْيَ وَ الْقَلَآىِٕدَ: ان کا لوگوں کے لیے قیام کا سبب ہونا اس اعتبار سے ہے کہ ہدی (قربانی) کا گوشت مکہ کے فقراء میں تقسیم ہوتا اور ہدی اور قلادہ والے جانور کوئی شخص لے کر چلتا تو اس کا تمام عرب احترام کرتے۔ مقصد کعبہ کی عظمت کو بیان کرنا تھا، اس کے ساتھ ان چیزوں کا بھی ذکر کر دیا، کیونکہ ان کا تعلق بھی بیت اللہ سے ہے۔ (کبیر)
➍ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ …:” ذٰلِكَ “(یہ) یعنی اللہ تعالیٰ کا ان چیزوں کو لوگوں کے قیام کا باعث بنانا اس لیے ہے کہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمام معاملات کی تفصیل جانتا ہے اور اس نے اپنے علم کے مطابق لوگوں کے قیام اور فائدے کے لیے یہ احکام جاری فرمائے ہیں۔ «وَ اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ» یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی تمام تفصیلات جانتا ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ تمھاری دینی اور معاشی بہتری کس چیز میں ہے اور کس چیز میں نہیں۔