تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 67)وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ: یعنی اﷲ تعالیٰ کے پیغام میں سے اگر کچھ بھی چھپا لیا، یا پہنچانے میں سستی کی تو گویا سرے سے اس کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، خصوصاً یہود و نصاریٰ سے متعلق اعلانات۔ اس آیت میں ان لوگوں کی تردید ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے ہیں کہ آپ نے قرآن کی بعض آیات مسلمانوں تک نہیں پہنچائیں، بلکہ صرف علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کو بتائیں۔ خود علی رضی اللہ عنہ نے ان کے اس باطل عقیدے کی تردید فرمائی، چنانچہ ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ (اہل بیت) کے پاس کوئی اور کتاب ہے؟ تو انھوں نے فرمایا: نہیں، مگر اﷲ کی کتاب یا کتاب اﷲ کی وہ سمجھ ہے جو کسی مسلمان آدمی کو عطا کی جائے، یا جو اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا: اس صحیفے میں کیا ہے؟ فرمایا: دیت اور قیدیوں کو چھڑانے سے متعلق احادیث اور یہ کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔ [بخاری، العلم، باب کتابۃ العلم:۱۱۱ ] عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جو شخص یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کوئی چیز چھپا لی تھی جو اﷲ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمائی تو یقینا اس نے جھوٹ بولا، کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «يٰۤاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ» اے رسول! پہنچا دے جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے۔ [ بخاری، التفسیر، باب: «‏‏‏‏یأیھا الرسول بلغ ما أنزل إلیک من ربک»: ۴۶۱۲ ] جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع کے دن) اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا: تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو کیا جواب دو گے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ہم سب یہ گواہی دیں گے کہ بے شک آپ نے پیغامِ رسالت کو پہنچا دیا اور (پہنچانے کا) حق ادا کر دیا اور یہ کہ آپ نے خیر خواہی فرمائی۔ اس پر آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے اور صحابہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اے اﷲ! تو گواہ ہو جا، اے اﷲ! تو گواہ ہو جا۔ [ مسلم، الحج، باب حجۃ النبی: ۱۲۱۸۔ بخاری: ۱۷۴۱ ]

وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ: اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص حفاظت میں لے لیا اور فرمایا کہ تم میرا پیغام پہنچاؤ، میں خود تمھیں لوگوں سے بچاؤں گا۔ اس آیت کے اترنے سے پہلے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرا دیا جاتا تھا، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سو نہیں رہے تھے، میں بھی آپ کے پاس ہی لیٹی ہوئی تھی، میں نے عرض کی: اے اﷲ کے رسول! کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: کاش! کوئی نیک آدمی میرا پہرا دیتا۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ میں نے ہتھیاروں کی جھنکار سنی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کون ہے؟ آنے والے نے کہا: سعد بن ابی وقاص ہوں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیسے آنا ہوا؟ انھوں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! میں آیا ہوں کہ (آج رات) آپ کا پہرا دوں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اس کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم آرام سے سو گئے، حتیٰ کہ میں نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی۔ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب الحراسۃ فی الغزو فی سبیل اﷲ: ۲۸۸۵۔ مسلم: ۲۴۱۰ ]

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرے کا انتظام کیا جاتا تھا، یہاں تک کہ جب یہ آیت اتری: «وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ» تو آپ نے خیمے سے سر نکال کر فرمایا: لوگو! تم چلے جاؤ، اﷲ تعالیٰ مجھے (دشمن سے) بچائے گا۔ [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ المائدۃ: ۳۰۴۶ ] اس کی ایک مثال وہ اعرابی بھی ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوتے ہوئے آپ کی تلوار پکڑ کر کہا تھا کہ تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ نے فرمایا: اﷲ!

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ: یعنی اﷲ تعالیٰ کفار کو ان کے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ (کبیر) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں، یعنی اگرچہ وہ دشمن ہوں تم بے فکر یہ پیغام پہنچاؤ اور خطرہ نہ کرو۔ (موضح) یا مطلب یہ ہے کہ ہدایت و گمراہی اﷲ کے ہاتھ میں ہے، اس لیے اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو فکر نہ کرو۔ (ابن کثیر)



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.