(آیت 44) ➊ اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌ ……: اس میں یہود کو تنبیہ ہے جو حد رجم (سنگ ساری) کا انکار کرتے تھے اور ان کے لیے ترغیب ہے کہ وہ اپنے اسلاف، انبیاء، احبار اور علمائے ربانیین کا مسلک اختیار کریں۔ (کبیر) بنی اسرائیل میں بھی موسیٰ علیہ السلام کے بعد عیسیٰ علیہ السلام تک بہت سے پیغمبر ایسے گزرے ہیں جن پر کوئی نئی کتاب نازل نہیں کی گئی اور وہ اپنے زمانے میں لوگوں کو تورات ہی پر عمل کرنے کی نصیحت کرتے اور ان کے درمیان اسی کے احکام کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ خود عیسیٰ علیہ السلام کو کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی، بلکہ ان کی بعثت کا مقصد تورات ہی کی شریعت کو زندہ کرنا تھا۔ ”الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا“ یہ صفت مدح ہے اور ان انبیاء کے فرماں بردار ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ دین ابراہیم کے تابع تھے، یا اﷲ تعالیٰ کے فرماں بردار تھے۔ (قرطبی، کبیر)
➋ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ:” بِمَا “ کی باء کا تعلق ”الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ“ سے ہے، مطلب یہ ہے کہ جس زمانے میں کوئی نبی نہیں ہوتا تھا تو یہ درویش اور تعلیم یافتہ لوگ یہودیوں کے مابین تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے، کیونکہ انبیاء نے انھی کو اﷲ تعالیٰ کی کتاب تورات کا محافظ مقرر کیا تھا اور ” شُهَدَآءَ “ کے معنی یہ ہیں کہ وہ تورات کے اﷲ کی طرف سے ہونے پر گواہ تھے۔ بعض علماء نے ” بِمَا اسْتُحْفِظُوْا “ کی ”باء“ کا تعلق ” يَحْكُمْ “ سے بیان کیا ہے کہ اﷲ کی کتاب کی جو امانت ان کے سپرد کی گئی تھی وہ اس کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ (قرطبی، کبیر)
➌ تورات کی حفاظت کے ذمے دار اور اس کے محافظ تو علماء اور رب والے لوگ بنائے گئے تھے مگر قرآن مجید اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا ذمہ اﷲ تعالیٰ نے خود اٹھایا، فرمایا: «اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ» [ الحجر: ۹ ]”بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔“ اگرچہ قرآن کی حفاظت کا کام بھی اﷲ تعالیٰ نے علماء اور ربانیین ہی سے لیا مگر اس کا ذمہ خود اٹھانے کی وجہ سے تورات اور قرآن کے محفوظ رہنے میں جو فرق ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
➍ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ: یعنی تم بھی اپنے انبیاء اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلو اور تورات میں کوئی تحریف نہ کرو، نہ اسے چھپا کر نہ غلط مسئلہ بتا کر دنیا کا فائدہ اٹھاؤ، کیونکہ دنیا جتنی بھی ہو قلیل ہے اور حق بات کہنے میں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جو حالات اس میں مذکور ہیں ان کے بیان کرنے میں لوگوں کی پروا مت کرو، نہ ان سے ڈرو، بلکہ صرف میرے انتقام اور عذاب کا ڈر اپنے دلوں میں رکھو۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”حکام پر اﷲ تعالیٰ نے تین چیزیں لازم کی ہیں: (1) خواہش کی پیروی نہ کریں: «وَ لَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ»[صٓ: ۲۶] اور فرمایا: «يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا»[ المائدۃ: ۴۴ ](2) صحیح فیصلہ کرنے میں لوگوں سے نہ ڈریں: «فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ»[ المائدۃ: ۴۴ ](3) اور رشوت لے کر غلط فیصلہ نہ کریں: «وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَمَنًا قَلِيْلًا»[ المائدۃ: ۴۴ ][بخاري، الأحكام، باب متي يستوجب الرجل القضاء، قبل ح: ۷۱۶۳] یہ تینوں باتیں اس آیت میں مذکور ہیں۔
➎ وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ: یہ خطاب یہود سے ہے، یعنی جب وہ جان بوجھ کر تورات کے فیصلے کو چھپاتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرنا چاہتے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ باوجود زبانی دعویٰ کرنے کے یہ کافر ہیں۔ مسلم حاکم پر کفر کا فتویٰ اسی وقت لگا سکتے ہیں جب وہ قرآن و حدیث کا انکار کر کے ان کے خلاف فیصلہ صادر کرے، ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔