(آیت 39)فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ ……: یہاں ظلم سے مراد چوری ہے، یعنی جس نے چوری کے بعد توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لی اﷲ تعالیٰ اس کا گناہ معاف فرما دے گا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ توبہ کر لینے سے چوری کی حد اس سے ساقط ہو جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چور کے متعلق فرمایا: ”اسے لے جاؤ، اس کا ہاتھ کاٹ دو، پھر اسے داغ دو، پھر میرے پاس لاؤ۔“ الغرض! اس کا ہاتھ کاٹا گیا، پھر وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے اس سے فرمایا: ”اﷲ سے توبہ کرو۔“ اس نے کہا: ”میں اﷲ سے توبہ کرتا ہوں۔“ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اﷲ تیری توبہ قبول کرے۔“[ مستدرک حاکم: 381/4، ح: ۸۱۵۰ و صححہ و قال صاحب نیل الأوطار سندہ صحیح ] یہ تو بالکل صحیح ہے کہ حدود صرف گناہ سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ اس گناہ کا کفارہ بھی ہیں، ان سے وہ گناہ معاف ہو جاتا ہے مگر ساتھ توبہ بھی ضروری ہے، تاکہ آئندہ وہ یہ حرکت نہ کرے۔ ہاں کوئی شخص چوری کرے اور اس کا کسی کو پتا نہ چلے، یا چوری کے مال کا مالک اسے عدالت میں نہ لے جائے تو اس کے لیے توبہ و استغفار ہی کافی ہے۔