(آیت 14) ➊ وَ مِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰۤى ……: یعنی ”اﷲ کے مدد گار“ چونکہ یہ لوگ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے نصاریٰ سے اقرار لیا، بلکہ یہ فرمایا کہ ہم نے ان لوگوں سے اقرار لیا جو اپنے آپ کو ”نصاریٰ“ کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہود کی طرح نصاریٰ سے بھی ہم نے توحید اور نبی آخر الزماں پر ایمان لانے کا عہد لیا مگر انھوں نے بھی اس عہد کو توڑ ڈالا۔ (کبیر، قرطبی)
➋ فَاَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ: یعنی ہم نے اس وقت سے لے کر قیامت تک ان کے درمیان دشمنی اور کینہ وری بھڑکا دی، چنانچہ اس وقت بھی ان میں آپس میں مذہبی عداوت پائی جاتی ہے اور پھر خود نصرانیوں کے بھی بہت سے فرقے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کے دشمن اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ رہا مسلمانوں کے مقابلے میں ان کا ایک ہونا تو وہ مسلمانوں کے ترکِ جہاد اور کفار کا مسلمانوں کے ممالک سے اپنا اپنا حصہ لینے کے لیے ہے، ورنہ ظاہر میں ایک نظر آنے کے باوجود ان کی باہمی لڑائی ایک یقینی حقیقت ہے، جس کا مطالعہ کر کے مسلمان فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: «تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَّ قُلُوْبُهُمْ شَتّٰى»[ الحشر: ۱۴ ]”تو خیال کرے گا کہ وہ اکٹھے ہیں، حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں۔“
مگر افسوس اب مسلمانوں میں ایسا اختلاف اور دشمنی پیدا ہو گئی کہ صرف مسلمان نام نے انھیں جمع کر رکھا ہے، باقی کفار ان کے افتراق سے فائدہ اٹھا کر ان پر حکومت کر رہے ہیں۔