(آیت 3) ➊ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ: شروع کی آیت میں جن جانوروں کے حرام ہونے کے بیان کا وعدہ ” سوائے ان کے جو تم پر پڑھے جائیں گے “ کے ساتھ کیا گیا تھا اس آیت میں ان کا ذکر ہے۔
➋ الْمَيْتَةُ: مردار میں سے مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں، کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کر دیے گئے ہیں، مردار تو مچھلی اور ٹڈی ہیں (کیونکہ ان میں دم مسفوح نہیں ہوتا) اور خون جگر اور تلی ہیں۔“[أحمد:97/2 ح: ۵۷۲۵۔ ابن ماجہ: ۳۳۱۴، و صححہ الألبانی فی الصحیحۃ: ۱۱۱۸ ] حرام خون اور لحم خنزیر کی تفصیل سورۂ انعام (۱۴۵) میں ہے۔
➌ وَ الْمُنْخَنِقَةُ: گلا گھٹنے والا جانور، خواہ خود بخود رسی وغیرہ سے گھٹ کر مر جائے یا کوئی گلا گھونٹ کر مار دے۔
➍ وَ الْمَوْقُوْذَةُ: جسے کسی لاٹھی یا پتھر وغیرہ کی چوٹ سے مارا جائے۔
➎ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ: اس کا تعلق اس سے پہلے مذکور پانچ چیزوں کے ساتھ ہے کہ ان پانچوں چیزوں میں سے کسی کے اندر اگر جان باقی ہو اور مرنے سے پہلے اسے ذبح کر لو تو وہ حلال ہے۔ شرعی ذبح یہ ہے کہ حلال جانور کو ” بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَكْبَر“ کہہ کر کسی تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی شرعی طریقہ ہے کہ کھڑے اونٹ کے حلق کے گڑھے میں چھری وغیرہ ماری جائے۔ ذبح اور نحر حلق یا لبہ (حلق کے گڑھے) ہی میں ہوتا ہے، البتہ اگر مجبوری ہو، مثلاً جانور قابو نہیں آ رہا، یا ایسی جگہ ہے جہاں پکڑ کر ذبح کرنا مشکل ہے تو ” بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَكْبَرُ “ پڑھ کر جہاں سے بھی ہو سکے چھری یا نیزے سے خون بہا کر ذبح کیا جا سکتا ہے۔ اگر ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر نہیں بلکہ اتفاقاً گردن الگ ہو جائے تو وہ بھی حلال ہے۔
➏ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ: مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے لیے جو جگہیں مقرر کرتے انھیں نصب کہا جاتا تھا، کیونکہ عموماً وہاں کوئی نشان نصب ہوتا، مثلاً بت، درخت، قبر یا دریا وغیرہ۔ پھر اس کے پاس ان کا قرب حاصل کرنے کے لیے جانور ذبح کرتے تھے۔ ایسی جگہوں کو استھان، تھان اور آستانہ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ ایسے جانور بھی حرام ہیں خواہ ان پر ”بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَكْبَر“ بھی پڑھا جائے، اگرچہ ان کا ذکر «وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ» کے ضمن میں آ چکا تھا مگر مزید تاکید کے لیے ان کو الگ بھی ذکر فرمایا۔ ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ ”بوانہ“ مقام پر اونٹ نحر کرے گا، وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے ”بوانہ “ مقام پر ایک اونٹ نحر کرنے کی نذر مانی تھی۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا وہاں ایام جاہلیت کے (انصاب) استھانوں میں سے کوئی استھان تھا؟“ لوگوں نے کہا: ”نہیں! “ آپ نے مزید پوچھا: ”کیا وہاں مشرکین کی عیدوں (میلوں) میں سے کوئی عید تھی؟“ لوگوں نے کہا:” نہیں!“ آپ نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کرو۔“[ أبو داوٗد، الأیمان والنذور، باب ما یؤمر بہ من وفاء النذر: ۳۳۱۳ ]
➐ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ:”اَزْلاَمٌ“ یہ ”زَلَمٌ “ کی جمع ہے، یہ وہ تیر تھے جو قسمت معلوم کرنے کے لیے ہبل بت کے پاس رکھے ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی تصویروں کے ہاتھوں میں بھی تھمائے ہوئے تھے، بلکہ لوگ اپنے ساتھ بھی قسمت آزمائی کے یہ تھیلے رکھ لیتے تھے، جیسا کہ سراقہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کرتے ہوئے ان تیروں سے فال نکالی تھی۔ ان میں سے کسی پر ”اِفْعَلْ“(کر لو) لکھا ہوتا، کسی پر ” لَا تَفْعَلْ “(مت کرو) لکھا ہوتا اور کوئی خالی ہوتا۔ قسمت معلوم کرنے والا تیر نکالتا، جو حکم نکلتا اس پر عمل کرتا، اگر خالی تیر نکلتا تو دوبارہ تیر نکالتا۔ اس قسم کے تمام کام، خواہ انھیں فال نامہ کہا جائے یا استخارہ یا کسی نجومی سے پوچھا جائے حرام ہیں، شرک ہیں کیونکہ غیب تو اﷲ کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں، مسنون استخارے میں اس چیز کا وجود ہی نہیں ہے۔ «وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ» کا ایک اور مطلب بھی ہے، یعنی جوئے کے تیروں کے ذریعے سے ذبح شدہ گوشت کے حصے تقسیم کرنا، اس میں کسی کا حصہ نکل آتا، کوئی محروم رہ جاتا، یہ وہی چیز ہے جسے آج کل لاٹری کہا جاتا ہے، یہ بھی حرام ہے۔ (قرطبی)
➑ اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ……: یعنی اب تمھاری طاقت اس قدر مستحکم ہو گئی ہے کہ تمھارے دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور وہ اس چیز سے قطعی مایوس ہو گئے ہیں کہ تمھارے دین کو نیچا دکھا سکیں۔
➒ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ ……: طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا: ”آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر ہم یہودیوں کی کتاب میں یہ آیت نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنا لیتے۔“ آپ نے فرمایا: ”کون سی آیت؟“ اس نے یہ آیت پڑھی: «اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا» [ المائدۃ: ۳ ] یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”ہم اس دن اور جگہ کو جانتے ہیں جب یہ (آیت) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی، آپ (۹ذوالحجہ کو) عرفہ میں تھے (پچھلے پہر کا وقت تھا) اور جمعۃ المبارک کا دن۔“[ بخاری، الإیمان، باب زیادۃ الإیمان و نقصانہ: ۴۵ ]
دین کو مکمل کر دینے سے مراد یہ ہے کہ اس کے تمام ارکان، فرائض، سنن، حدود اور احکام بیان کر دیے گئے ہیں اور کفر و شرک کا خاتمہ کر کے اس نعمت کو مکمل کر دیا گیا ہے۔ اب دین میں جو حرام ہونا تھا یا حلال ہونا تھا وہ ہو چکا، اب اگر کوئی اس میں تبدیلی یا اضافہ کرے گا، یا نئی چیز نکالے گا وہ دین نہیں ہو سکتی بلکہ دین میں بدعت ہے، جو سراسر گمراہی ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَنْ أَحْدَثَ فِيْ أَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ]”جو ہمارے اس امر(دین) میں کوئی نئی چیز شروع کرے گا جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے۔“[ بخاری، الصلح، باب إذا اصطلحوا……: ۲۶۹۷ ]
➓ فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ ……: یعنی بھوک کی وجہ سے مجبور اور لاچار آدمی اگر حرام چیزوں میں سے کچھ کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ حرام کھانے کا شوق نہ ہو اور اسے جائز نہ سمجھنے لگے اور دوسرا بقدر ضرورت کھائے، حد سے نہ گزرے۔ معلوم ہوا حرام کھانے کا تعلق بھوک اور حقیقی مجبوری سے ہے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے اضطرار کا بہانہ بنا کر سود کھانا شروع کر دے، یہ مراد نہیں۔