(آیت 1)➊ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا ……: اس آیت میں پانچ احکام بیان ہوئے ہیں: (1) عقود اور عہود کا پورا کرنا۔ (2) چوپاؤں کا حلال ہونا۔ (3) کچھ چوپاؤں کا حرام ہونا، جن کا ذکر اس سورت کی دوسری اور تیسری آیت میں ہے۔(4) محرم کے لیے اور حرم میں شکار کا حرام ہونا۔ (5) غیر محرم کے لیے غیر حرم میں شکار کا حلال ہونا۔
➋ بِالْعُقُوْدِ: یہ ” عَقْدٌ “ کی جمع ہے جس کا معنی گرہ لگانا ہے، عہد و پیمان کے معنی میں بھی آتا ہے، کیونکہ وہ بھی گرہ کی طرح پختہ کیا جاتا ہے، مراد شریعت کے احکام ہیں۔ دوسری جگہ عقد کو عہد سے بھی تعبیر کیا ہے، فرمایا: «وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِيْۤ» [البقرۃ: ۴۰ ]”اور تم میرا عہد پورا کرو۔“ اس میں آپس کے عہد و پیمان بھی شامل ہیں۔ یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے، اس کے بعد نیچے اس کی تفصیل بیان ہو رہی ہے۔ (کبیر، ابن کثیر)
➌ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيْمَةُ الْاَنْعَامِ: ”بَهِيْمَةُ“ سے مراد درندوں کو چھوڑ کر باقی چوپائے ہیں، وہ سب حلال ہیں، خواہ پالتو ہوں یا وحشی، مثلاً ہرن، نیل گائے وغیرہ، سوائے ان کے جن کا نام لے کر قرآن یا حدیث میں حرام کہا گیا ہے، مثلاً گدھا وغیرہ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ(۱۷۳)”الْاَنْعَامِ“ سے مراد اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری ہیں۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۴۲ تا ۱۴۴)۔
➍ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ: اس کی تفسیر اسی سورت کی آیت (۳) میں آ رہی ہے۔
➎ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ: ”حُرُمٌ“ یہ ”حَرَامٌ “ کی جمع ہے، جس نے عمرہ یا حج کا احرام باندھا ہو، اسی طرح جو شخص مکہ کی حدود حرم میں ہو، خواہ احرام نہ باندھا ہو، اس حالت میں شکار بھی ممنوع ہے اور شکار کرنے والے کی کسی طریقے سے مدد کی بھی ممانعت آئی ہے۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۹۵، ۹۶) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو بھی حرم قرار دیا، اس کی حدود میں بھی شکار منع ہے۔ [ بخاری، فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ: ۱۸۶۸ ]