(آیت 148) ➊ لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ ……: یعنی اگر کسی شخص میں کوئی دینی یا دنیوی عیب پایا جاتا ہے تو اسے سر عام ذلیل کرنا جائز نہیں اور نہ ہر شخص کو بتانا جائز ہے، کیونکہ یہ غیبت ہے اور غیبت قطعی حرام ہے، البتہ جب کوئی شخص ظلم پر اتر آئے تو مظلوم کو حق حاصل ہے کہ وہ اس کی زیادتی کے خلاف آواز بلند کرے، خصوصاً جہاں آواز بلند کرنے سے اس پر ظلم رک سکتا ہو، یا اس کا مداوا ہو سکتا ہو۔ اسی طرح لوگوں کو اس کے ظلم سے بچانے کے لیے اس کا عیب بیان کرنا بھی جائز ہے۔ حدیث کے راویوں پر جرح بھی اسی ضمن میں آتی ہے، کیونکہ ضعیف روایت بیان کرنا امت پر ظلم ہے۔ کوئی شخص باوجود وسعت کے دوسرے کا حق نہ دیتا ہو تو اس کو طعن و ملامت کرنا بھی جائز ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غنی آدمی کا حق ادا کرنے میں دیر کرنا، یا ٹال مٹول کرنا اس کی سزا اور اس کی عزت کو حلال کر دیتا ہے۔“[ بخاری، الاستقراض، باب لصاحب الحق مقال، قبل ح: ۲۴۰۱ ] اسی طرح جو زیادتی میں پہل کرے اسے جواب دینا جائز ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپس میں گالی گلوچ کرنے والے، وہ دونوں جو کچھ بھی کہیں، سب گناہ پہل کرنے والے پر ہے، جب تک مظلوم زیادتی نہ کرے۔“[ مسلم، البر والصلۃ، باب النھی عن السباب: ۲۵۸۷ ] اس آیت کے تحت مفسرین نے لکھا ہے کہ ظالم کے حق میں بددعا کرنا جائز ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ شوریٰ (۴۱) کوئی شخص زبردستی اس کے منہ سے برا کلمہ نکلوائے تو وہ بھی اس کے تحت جائز ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہمسائے کی زیادتیوں کی شکایت کی، آپ نے اسے اپنا سامان گھر کے باہر راستے میں نکال کر رکھ دینے کا مشورہ دیا، اب جو گزرتا پوچھتا تو وہ ہمسائے کا ظلم بتاتا۔ ہمسائے نے یہ دیکھ کر معذرت کرلی اور آئندہ ایذا نہ پہنچانے کا وعدہ کیا اور سامان اندر رکھنے کی درخواست کی۔ [أبو داوٗد، الأدب، باب فی حق الجوار: ۵۱۵۳ ]
➋ گزشتہ آیات میں منافقین کے عیوب کا بیان تھا، یہاں بات مکمل کرنے کے لیے فرمایا کہ یہ چونکہ ظالم ہیں، اس لیے ان کے عیب ظاہر کرنا جائز ہے۔ (کبیر) تاہم حتی الوسع نام لے کر بیان نہ کرے۔ (موضح) «وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِيْعًا عَلِيْمًا» یعنی اگر مظلوم زیادتی کرے گا تو اﷲ تعالیٰ کو وہ بھی معلوم ہے۔