تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 140) وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ …: اس سے پہلے سورۂ انعام (۶۸) میں یہ حکم نازل ہو چکا تھا، چنانچہ فرمایا: «وَ اِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْۤ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ وَ اِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ» [ الأنعام: ۶۸ ] اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہو جائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔ حدیث میں ایسی مجلس میں بیٹھنے سے بھی منع کیا گیا ہے جہاں اللہ کے حکم کی صریح نافرمانی ہو، چنانچہ فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اس دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چلتا ہو۔ [ أحمد: 20/1، ح: ۱۲۶، و حسنہ الألبانی فی غایۃ المرام ] ایسے واضح احکام کے باوجود منافقین کی یہ روش تھی کہ مسلمانوں کی مجلسوں کو چھوڑ کر یہودیوں اور مشرکوں کی مجلسوں میں شریک ہوتے جہاں آیات الٰہی کا مذاق اڑایا جاتا۔ زیر تفسیر آیت میں ان کی اسی روش کی طرف اشارہ ہے، ویسے آیت عام ہے اور ہر ایسی مجلس میں شرکت حرام ہے جہاں قرآن و سنت کا مذاق اڑایا جاتا ہو، چاہے وہ کفار و مشرکین کی مجلس ہو یا اہل بدعت اور فساق و فجار کی۔ جب برائی کو ہاتھ سے بھی نہ روک سکے، نہ زبان سے تو پھر خاموش بیٹھ کر سنتے رہنا اور دل میں برا بھی نہ جاننا تو کمزور ترین ایمان کے بھی منافی ہے، بلکہ فرمایا: تم بھی اس وقت ان جیسے ہو گے۔ اسی لیے شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص ایک مجلس میں اپنے دین کے عیب سنے، پھر انھی میں بیٹھے، اگرچہ آپ نہ کہے وہی منافق ہے۔ (موضح)



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.