(آیت 127) ➊ وَ يَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَآءِ …: گو یہاں یہ صراحت نہیں ہے کہ عورتوں کے بارے میں کیا سوال کر رہے تھے، لیکن اگلی چار آیات میں جو فتویٰ دیا گیا ہے اس سے اس سوال کا خود بخود پتا چل جاتا ہے۔
➋ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ وَ مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ …: یہاں دراصل کچھ سوالوں کے جواب کے لیے پچھلی آیات کا حوالہ دیا ہے کہ کتاب کی اسی سورت میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے وہ اسی سے متعلق ہے، مثلاً آیت (۳) اور اس کے بعد کی آیات یتیم لڑکیوں کے نکاح سے متعلق ہیں، پھر عورتوں کے حقوق اور نا بالغ بچوں کی نگہداشت اور ان کا مال کھانے سے اجتناب اور ان کا ورثہ دینا یہ سب اسی کے بارے میں ہے۔
➌ وَ تَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ:”اور رغبت رکھتے ہو کہ ان سے نکاح کر لو “ یہ ترجمہ اس صورت میں ہے کہ جب ”تَرْغَبُوْنَ“ کا صلہ ” فِيْ “ محذوف مانا جائے، جس کا معنی رغبت کرنا ہے اور اگر اس کا صلہ” عَنْ “ محذوف مانا جائے تو ترجمہ یوں ہو گا کہ تم ان سے نکاح کرنا پسند نہیں کرتے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث سے اس دوسرے ترجمے کی تائید ہوتی ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں یتیم بچیوں پر دونوں طرح کا ظلم کیا جاتا تھا۔ ابتدا سورت میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ (قرطبی) اس آیت کے مطلب میں شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”اس سورت کے اول میں یتیم کے حق کا ذکر تھا اور فرمایا تھا کہ یتیم لڑکی، جس کا کوئی ولی نہ ہو مگر اس کا چچا زاد، سو وہ اگر سمجھے کہ میں اس کا حق ادا نہ کر سکوں گا تو وہ اسے اپنے نکاح میں نہ لائے، کسی دوسرے سے اس کا نکاح کر دے اور خود اس کا ولی بن جائے۔ اب مسلمانوں نے ایسی عورتوں کو نکاح میں لانا موقوف کر دیا، پھر دیکھا گیا کہ بعض اوقات لڑکی کے ولی ہی کے لیے اسے اپنے نکاح میں رکھنا بہتر ہوتا ہے، اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت مانگی گئی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اجازت مل گئی اور فرمایا کہ وہ جو کتاب میں منع کیا گیا تھا وہ اس وقت ہے کہ اس کا حق پورا نہ دو، اگر ان کے حق کی بہتری کی سوچو تو رخصت ہے۔“(موضح)
➍ وَ الْمُسْتَضْعَفِيْنَ: یعنی ان کے بارے میں بھی اپنے احکام یاد دلاتا ہے جو اس سورت کے شروع میں میراث کے تحت دیے گئے ہیں۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۰، ۱۱)۔