(آیت 119) ➊ وَ لَاُمَنِّيَنَّهُمْ …: یہ وہ باطل امیدیں ہیں جو شیطان انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے کہ گناہ کرتے رہو اللہ تعالیٰ بڑا غفور و رحیم ہے، ایمان مسلمان کے دل میں ہونا چاہیے، نماز پڑھنے اور دوسرے نیک اعمال کی کیا ضرورت ہے، یا ابھی جلدی کیا ہے، مرتے وقت توبہ کر لیں گے، یا جن بزرگوں اور پیروں کا تم دم بھرتے ہو ان کا اللہ پر بڑا زور ہے، تم ان کا دامن تھام لینا وہ تمھیں سیدھے جنت میں لے جائیں گے وغیرہ۔ اس قسم کے تمام خیالات اور گمان شیطانی آرزوؤں میں داخل ہیں۔(قرطبی، ابن کثیر)
➋ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ: ” بَتْكٌ “ کا معنی قطع کرنا ہے، یعنی غیر اللہ کے نام پر جانوروں کے کان کاٹ کر ان پر سواری کرنا حرام سمجھیں گے، جنھیں بحیرہ و سائبہ وغیرہ کہتے تھے۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۱۰۳)۔
➌ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ …: یعنی اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں ان کی شکل و صورت تبدیل کریں گے اور ان کے حلال و حرام ہونے کے احکام بھی بدل دیں گے۔ اس میں رہبانیت(دنیا میں اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرکے جنگل میں جا رہنا)، قوم لوط کا عمل، مردوں کا خصی ہو کر ہیجڑا بن جانا، عورتوں کو بانجھ بنانا، برتھ کنٹرول کے نام پر مردوں کی نس بندی اور عورتوں کے آپریشن کر کے بچے پیدا ہونے میں رکاوٹیں ڈالنا، عورتوں کو گھروں سے نکال کر ان کے فطری فرائض سے سبکدوش کر کے مردوں کی صف میں کھڑا کر دینا، عورتوں کو مملکت کی سربراہ بنا دینا، خوب صورتی کے لیے ابروؤں کے بال اکھاڑنا، جلد میں نیل وغیرہ بھر کر نقش و نگار بنانا، دانت باریک کروانا، سر پر مصنوعی بال لگوانا، مردوں کا داڑھی منڈوانا، عورتوں کا لباس کم از کم کر کے انھیں ننگا کرنے کی کوشش کرنا، یہ سب شیطانی کام ہیں اور اللہ تعالیٰ کی لعنت کا موجب ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے لعنت کی گودنے والیوں اور گدوانے والیوں پر (جلد میں نیل یا سرمہ بھر کر نقش بنوانے والیوں)، چہرے کے بال صاف کرنے والیوں اور کروانے والیوں پر اور حسن کے لیے دانتوں میں فاصلہ کروانے والیوں پر جو اللہ عزوجل کی خلق (پیدائش) کو بدلتی ہیں۔“ پھر فرمایا: ”میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی اور وہ اللہ کی کتاب میں بھی ہے “ اور یہ آیت پڑھی: «وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا»[ الحشر: ۷ ]”جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو، جس سے منع کر دے اس سے باز آ جاؤ۔“[ بخاری، التفسیر، باب: «وما آتاکم الرسول فخذوہ» : ۴۸۸۶ ]