(آیت 117) ➊ ”اِنٰثًا“”أُنْثَي“ کی جمع ہے، یعنی مؤنث۔ ان سے مراد یا تو بت ہیں جن کے اکثر نام (لات، مناۃ، عزیٰ وغیرہ) مؤنث تھے یا فرشتے ہیں۔ کیونکہ مشرکین انھیں اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کی عبادت کیا کرتے تھے۔ یونانیوں اور ہندوؤں نے بھی عبادت کے لیے دیویاں بنا رکھی ہیں۔ مسلمانوں نے ان کی دیکھا دیکھی ایسی ہستیوں میں ایسے اوصاف مشہور کر رکھے ہیں جیسے وہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی محبوبائیں ہوں، بلکہ ان کے خیال میں جو پہنچے ہوئے ہیں وہ اپنی وضع قطع بھی عورتوں والی بنا کر رکھتے ہیں، وہی چوڑیاں وہی زیور وغیرہ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد پر لعنت فرمائی جو عورت کا لباس پہنے اور اس عورت پر جو مرد کا سا لباس پہنے۔ [ صحیح ابن حبان: ۵۷۵۲، عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ و صححہ محققہ ]
➋ وَ اِنْ يَّدْعُوْنَ …: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی وضاحت اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنے کے ساتھ کی ہے، کیونکہ عبادت میں اصل ہے ہی پکارنا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ ]” پکارنا ہی تو عبادت ہے “[ ترمذی، الدعوات، باب منہ [ الدعاء مخ العبادۃ ] : ۳۳۷۲۔ أبوداوٗد: ۱۴۷۹ ] اور دیکھیے سورۂ مومن (۶۰) جو شخص بھی غیبی مدد کے لیے کسی کو اللہ کے سوا پکارتا ہے وہ مشرک ہے، کیونکہ عبادت اسی پکارنے ہی کا نام ہے، بلکہ عبادت کی جتنی بھی صورتیں ہیں، یعنی قیام، رکوع، سجدہ، نذرو نیاز اور پکارنا وغیرہ، ان سب کا اصل مقصد کسی کو غیبی قوتوں کا مالک جان کر مانگنا ہی ہوتا ہے، کوئی اللہ کے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے تو اس سے مانگتا ہے، غیر اللہ کے ساتھ کرتا ہے تو اس سے مانگتا ہے۔
➌ شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا: بتوں، فرشتوں، دیوی دیوتاؤں اور دوسری ہستیوں کی عبادت کرنے والے اپنے خیال میں جس کی بھی عبادت کرتے رہیں حقیقت میں وہ سرکش شیطان ہی کی عبادت کر رہے ہیں، کیونکہ شیطان ہی انھیں اللہ کے دروازے سے ہٹا کر دوسروں کے آستانوں اور چوکھٹوں پر جھکاتا ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ جن لوگوں کی یہ پوجا کرتے ہیں، انھیں تو خبر ہی نہیں کہ کوئی ہمیں پکار رہا ہے۔ دیکھیے سورۂ احقاف (۵، ۶) اور یونس (۲۸، ۲۹) یہ لوگ صرف شیطان کے کہنے پر اپنے وہم و گمان سے بنائی ہوئی ہستیوں کو پوج رہے ہیں۔ دیکھیے سورۂ نجم (۲۳) اور یونس (۶۶)۔