(آیت 116) ➊ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ …: پچھلی آیت میں اس شخص کا ذکر ہے جو رسول کی مخالفت کرتا ہے اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرتا ہے۔ ایسا وہی شخص ہو سکتا ہے جو اپنے کفر پر اصرار کرے اور دین اسلام قبول نہ کرے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کے کفر پر اڑنے کو شرک قرار دیا اور صراحت فرما دی کہ اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں۔ ہاں اگر کوئی شخص دین سلام قبول کرلے، اللہ کی توحید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت دے، اس کا عملی ثبوت دے اور ایسے فعل سے بچا رہے جس سے آدمی ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، تو پھر کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھے تو اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے چاہے تو ویسے ہی معاف کر دے یا سزا دے کر جنت میں داخل کر دے۔ مگر جو شخص اسلام ہی قبول نہ کرے، یا اسلام لا کر صریح ارتداد والے اعمال کا ارتکاب کرے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں معافی نہیں، کیونکہ اسے معافی دینے کا مقصد باغی اور غدار کو معافی دینا ہے جو اپنی بغاوت اور غدر پر قائم ہو۔ بغاوت کو کوئی معمولی سے معمولی بادشاہ بھی برداشت نہیں کرتا، تو بادشاہوں کا بادشاہ، جس کی غیرت بے پناہ ہے، وہ بغاوت کو کیسے معاف کر سکتا ہے؟ معلوم ہوا ابدی جہنمی صرف کفار و مشرکین ہوں گے، مسلمان گناہ گار ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے۔ اس سے ان لوگوں کا رد نکلتا ہے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب مسلم کو دائمی جہنمی کہتے ہیں۔ مزید دیکھیے اسی سورت کی آیت (۴۸)۔
➋ اوپر سے منافقوں کا ذکر آ رہا ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کو پسند نہ کرتے اور جدا راستے پر چلتے تھے۔ اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شرک کو نہیں بخشتا، تو معلوم ہوا کہ اسلام کے سوا کسی دوسرے دین (طریقہ) کو محبوب رکھا جائے اور اس کو معمول بنایا جائے تو یہ شرک ہے، کیونکہ اسلام کے سوا جو دین بھی ہے شرک ہے، اگرچہ پرستش کا شرک نہ بھی کیا جائے۔ (موضح)