(آیت 102) ➊ وَ اِذَا كُنْتَ فِيْهِمْ …: اس آیت میں صلاۃ الخوف کی اجازت بلکہ حکم دیا جا رہا ہے۔ یہ خوف کی نماز کا وہ موقع ہے کہ جب دشمن موجود ہو اور اس کے حملے کا خطرہ ہو، عملاً جنگ نہ ہو رہی ہو، لیکن ذرا سی غفلت بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہو، ایسے حالات میں اگر نماز کا وقت ہو جائے تو صلاۃ الخوف پڑھنے کا حکم ہے، جس کی مختلف صورتیں حدیث میں بیان کی گئی ہیں، مثلاً فوج دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، ایک حصہ (گروہ) دشمن کے بالمقابل کھڑا رہا، تاکہ کافروں کو حملہ کرنے کی جسارت نہ ہو اور ایک حصے نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، جب یہ حصہ نماز سے فارغ ہو گیا تو یہ پہلے کی جگہ مورچہ زن ہو گیا اور مورچہ زن حصہ نماز کے لیے آ گیا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں حصوں کو ایک ایک رکعت پڑھائی، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعت اور باقی فوجیوں کی ایک ایک رکعت ہوئی۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ دو، دو رکعات پڑھائیں، اس طرح آپ کی چار رکعت اور فوجیوں کی دو، دو رکعت ہوئیں۔ نیز بعض میں آتا ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر التحیات کی طرح بیٹھے رہے، فوجیوں نے کھڑے ہو کر اپنے طور پر ایک رکعت اور پڑھ کر دو رکعات پوری کیں اور دشمن کے سامنے ڈٹ گئے، دوسرے حصے (گروہ) نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، آپ نے انھیں بھی ایک رکعت پڑھائی اور التحیات میں بیٹھ گئے اور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک فوجیوں نے دوسری رکعت پوری نہیں کر لی، پھر ان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا، اس طرح آپ کی بھی دو رکعت اور فوج کے دونوں حصوں کی بھی دو رکعات ہوئیں۔
➋ ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ مرتبہ صلاۃ الخوف پڑھی ہے اور امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صلاۃ الخوف میں تمام احادیث صحیح اور ثابت ہیں، لہٰذا جس صورت میں نماز ادا کر لی جائے جائز ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سب احادیث کا مرجع چھ سات صورتوں کی طرف ہے، جن میں سے ہر صورت پر حسب موقع عمل کیا جا سکتا ہے۔(زاد المعاد: ۱؍۵۱۲) امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے صلاۃ الخوف کی صورتیں صحیح سندوں کے ساتھ بہت تفصیل سے ذکر فرمائی ہیں۔ یہ تمام صورتیں اس وقت ہیں کہ جب جماعت ممکن ہو، اگر ممکن نہ ہو تو اکیلا پڑھ لے، پیادہ یا سوار یا اشارے سے، جس طرح ہو سکے « فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا »[ البقرۃ: ۲۳۹ ]”پھر اگر تم ڈرو تو پیدل پڑھ لو یا سوار۔“ اگر جنگ جاری ہو اور اشارے سے بھی نہ پڑھ سکے تو بعد میں قضا کر کے پڑھ لے۔ صحیح بخاری میں ہے، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں تُستر قلعے کی فتح کے وقت موجود تھا، جب فجر روشن ہو رہی تھی اور لڑائی شدید بھڑک اٹھی تھی تو ہم نماز پڑھ ہی نہ سکے، چنانچہ دن بلند ہونے کے بعد ہی نماز پڑھی۔ ہم نے وہ نماز ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھی، اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”مجھے دنیا و مافیہا مل جائے تب بھی اتنی خوشی نہ ہو، جتنی اس نماز سے ہوئی۔“[ بخاری، صلاۃ الخوف، باب الصلاۃ عند مناھضۃ الحصون و لقاء العدو، قبل ح: ۹۴۵ ]