(آیت 94) ➊ فَتَبَيَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا …: ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنی تھوڑی سی بکریوں کے پاس تھا، کچھ مسلمان وہاں سے گزرے، اس نے ”اَلسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ“ کہا لیکن مسلمانوں نے اسے قتل کر ڈالا اور اس کی بکریاں لے لیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، جس میں ہے: « تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا »”تم دنیا کا سامان چاہتے ہو؟“ اس سے مراد وہ تھوڑی سی بکریاں ہیں۔ [ بخاری، التفسیر، باب: ولا تقولوا لمن ألقیٰ… : ۴۵۹۱ ]
➋ فَتَبَيَّنُوْا: یہاں تبین یعنی تحقیق کر لینے کا حکم سفر کے ساتھ ذکر کیا ہے، مگر یہاں سفر کی قید بیان واقعہ کے لیے ہے، یعنی یہ حادثہ جس سے متعلق آیت نازل ہوئی ہے، سفر میں پیش آیا تھا، ورنہ تحقیق کا حکم جس طرح سفر میں ہے اسی طرح حضر میں بھی ہے۔ (قرطبی)
➌ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ: یعنی یہی حالت پہلے تمھاری تھی، تم کافروں کے شہر میں رہتے تھے اور اپنے ایمان کو چھپاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے دین کو غالب کر کے تم پر احسان کیا۔ (قرطبی)