(آیت 93) وَ مَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا …: قتلِ خطا کا حکم بیان کرنے کے بعد اب اس آیت میں قتلِ عمد (قصداً قتل کرنے) کا حکم بیان فرمایا ہے، اس کا ایک حکم تو بیان ہو چکا ہے، یعنی اس صورت میں قصاص یا دیت واجب ہے، یا مقتول کے وارث کچھ معاف کر دیں۔ (دیکھیے بقرہ: ۱۷۸) یہاں صرف اس کے گناہ اور وعید کا ذکر ہے۔ متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس جرم کو اشراک باللہ کے ساتھ ذکر کیا ہے، یہاں فرمایا کہ اس کی جزا جہنم ہے جس میں ہمیشہ رہے اور اللہ تعالیٰ اس پر غصے ہو گیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیے عذاب عظیم تیار کیا ہے۔ اتنی سخت سزائیں یکجا ذکر کرنے سے اس گناہ کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے اور بظاہر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ مومن کو قصداً قتل کرنے والا ابدی جہنمی ہے اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں۔ مگر سورۂ فرقان (۶۸) میں قتل عمد کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے۔ اب بعض مفسرین کا کہنا تو یہ ہے کہ جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرنے کی توبہ اس وقت قبول ہے جب اس نے حالت کفر میں یہ قتل کیا ہو، مسلمان ہونے کے بعد کسی مسلم کو قتل کرے تو اس کی توبہ قبول نہیں، بلکہ ”خٰلِدًا فِيْهَا“ کے الفاظ سے اس کا ابدی جہنمی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ: «والذین لایدعون…»: ۴۷۶۲ ] مگر اکثر سلف اس کی توبہ قبول ہونے کے قائل ہیں، کیونکہ (1) شرک باللہ سے بڑا کوئی گناہ نہیں، وہ توبہ سے معاف ہو سکتا ہے تو یہ بھی معاف ہو سکتا ہے۔ (2) اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ وہ آگ میں ہمیشہ رہے گا، بلکہ فرمایا یہ ہے (کہ یہ جرم اتنا بڑا ہے) کہ اس کی جزا جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے، باقی اللہ معاف کرنا چاہے تو توبہ کے بعد یا توبہ کے بغیر بھی معاف کر سکتا ہے، جیسا کہ فرمایا: « اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ »[ النساء: ۴۸ ]”بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا۔“ لہٰذا یہ اللہ کی مشیت پر ہے چاہے تو سزا دے کر معاف کر دے، چاہے تو ویسے ہی معاف کر دے۔ خصوصاً توبہ کے بعد تو واضح بشارت موجود ہے: « لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا »[ الزمر: ۵۳ ]”اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے۔“(3) بنی اسرائیل کا وہ مسلمان جس نے سو آدمی قتل کیے تھے، اس کا واقعہ بھی قتل عمد کی توبہ کے قبول ہو سکنے کی دلیل ہے۔ [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب: ۳۴۷۰ ]
بعض اہل علم نے فرمایا کہ وہ قاتلِ عمد ابدی جہنمی ہے جو اس عمل کو جائز سمجھے، کیونکہ شریعت کے حرام کام کو حلال سمجھنا کفر ہے اور جنت کی نعمتیں کفار پر حرام ہیں، فرمایا: « اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِيْنَ»[ الأعراف: ۵۰ ]”بے شک اللہ نے یہ دونوں چیزیں کافرو ں پر حرام کر دی ہیں۔“ بے شک اللہ تعالیٰ نے (جنت کا پانی اور رزق) دونوں چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں مگر اس صورت میں اس کے ہمیشہ جہنم میں رہنے کا باعث قتل عمد نہیں بلکہ کفر ہو گا۔