(آیت 78) ➊ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ: ”بُرُوْجٍ“ یہ ”بُرْجٌ“ کی جمع ہے، مضبوط عمارت، قلعہ۔ ”مُشَيَّدَةٍ“ جو ” اَلشِّيْدُ “ یعنی چونے سے بنے ہوئے ہوں۔ یہ جہاد کے لیے حوصلہ بڑھانے والی دوسری بات ہے کہ جب موت سے تمھیں کسی حال میں چھٹکارا نہیں تو پھر اللہ کی راہ میں جہاد سے کیوں ہچکچاتے ہو۔ اس مطلب کی آیات قرآن کریم میں بہت ہیں، چنانچہ فرمایا: « قُلْ لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ »[ الأحزاب: ۱۶ ]”کہہ دے تمھیں بھاگنا ہرگز نفع نہ دے گا اگر تم مرنے یا قتل ہونے سے بھاگو گے۔“ اور فرمایا: « قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِيْكُمْ »[الجمعۃ: ۸ ]”کہہ دے بلاشبہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو سو یقینا وہ تم سے ملنے والی ہے۔“ اور فرمایا: « كُلُّ نَفْسٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ »[آل عمران: ۱۸۵ ]”ہر جان موت کو چکنے والی ہے۔“
➋ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ …: اوپر منافقین کی دو مذموم خصلتیں بتائیں، ایک جہاد سے جی چرانا دوسری موت سے ڈرنا، اب یہاں ان کی ایک اور مذموم خصلت کا ذکر فرمایا جو پہلی دونوں سے بری ہے، یعنی نحوست کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا۔ یہاں ”حَسَنَةٌ“(بھلائی) سے مراد فتح، نصرت، غلبہ اور خوش حالی وغیرہ ہے اور ” سَيِّئَةٌ “ سے مراد لڑائی میں نقصان، مصیبت، قتل اور ہزیمت وغیرہ ہے۔
➌ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ: یہ ان کے کلام کا جواب ہے کہ برائی اور بھلائی دونوں اسی کی طرف سے اور اسی کے حکم سے ہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے والا وہی ہے، بلا اور مصیبت کو کسی کی نحوست قرار دینا قطعی غلط اور پہلے کافروں کا طریقہ ہے، جیسا کہ قوم ثمود کا کہنا: « قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَ »[ النمل: ۴۷ ]”انھوں نے کہا ہم نے تیرے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو تیرے ہمراہ ہیں، بد شگونی پکڑی ہے۔“ اور سورۂ یٰس میں ہے: « اِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ »[ یٰسٓ: ۱۸ ]”بے شک ہم نے تمھیں منحوس پایا ہے۔“ اور فرعون کی قوم کے بارے میں ہے: « وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ »[ الأعراف: ۱۳۱ ]”اور اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کے ساتھ نحوست پکڑتے۔“
شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”یہ منافقوں کا ذکر ہے کہ اگر تدبیر جنگ درست آئی اور فتح اور غنیمت ملی توکہتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے ہوئی، یعنی اتفاقاً بن گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدبیر کے قائل نہ ہوتے تھے اور اگر بگڑ گئی تو الزام رکھتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدبیر پر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سب اللہ کی طرف سے ہے، یعنی پیغمبر کی تدبیر اللہ کا الہام ہے، غلط نہیں اور اگر بگڑی تو اس کو بگڑا نہ بوجھو، یہ اللہ تم کو سدھاتا ہے تمھاری تقصیر پر۔ اگلی آیت میں کھول کر بیان فرما دیا۔“(موضح)
➍ فَمَالِ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ …: یعنی تعجب ہے کہ کسی غور و فکر کے بغیر سمجھ میں آنے والی حقیقت بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ (رازی)