(آیت 77) ➊ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَهُمْ …: یعنی جب تک مسلمان مکہ میں تھے اور کافر انھیں ایذا دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے انھیں لڑنے سے روکے رکھا اور صبر کا حکم فرمایا، اب جو (مدینہ منورہ میں) لڑائی کا حکم آیا ہے تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ ہماری مراد ملی، لیکن کچے مسلمان کنارہ کرتے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے برابر آدمیوں سے خطرہ کرتے ہیں۔ (موضح) متعدد روایات میں ہے کہ مسلمانوں نے مکی زندگی میں کئی دفعہ چاہا کہ ظالموں سے دو بدو نمٹیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو حکم ہوتا کہ ابھی نماز اور زکوٰۃ (مال خرچ کرنے) کا جو تمھیں حکم ہوا ہے اس کی خوب عادت ڈالو، تاکہ تمھاری تربیت ہو جائے، مدینہ منورہ میں بھی ہجرت کے ابتدائی برسوں میں مسلمانوں کی خواہش یہی تھی، لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لڑائی کی اجازت آگئی تو اب بعض خام قسم کے مسلمان اس سے ہچکچانے لگے، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر، قرطبی)
➋ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِيْبٍ: شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کا ترجمہ یہ ہے: ”کیوں نہ جینے دیا ہم کو تھوڑی سی عمر“ جواب آگے ہے۔ بعض نے ترجمہ کیا ہے: ”قتال کی فرضیت کا یہ حکم نازل کرنے میں تو نے ہمیں کچھ مہلت کیوں نہ دی؟“
➌ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ: لڑائی سے ہچکچانے والے کمزور ایمان والوں اور منافقین کا حوصلہ دو باتوں سے بلند فرمایا ہے، پہلی تو یہ کہ دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کر کے جہاد کی ترغیب دی ہے، دنیا جتنی بھی ہو فانی ہے اور فانی جتنی بھی ہو قلیل (بہت تھوڑی) ہے۔ فانی اور باقی کا مقابلہ ہی کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس طرح کوئی شخص سمندر میں انگلی ڈبو کر نکالے اور اس کی انگلی میں تھوڑی سی نمی رہ جائے، ایسی ہی مثال دنیا اور آخرت کی ہے۔ “[ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمہا، باب فناء الدنیا …: ۲۸۵۸، عن المستورد الفھری رضی اللہ عنہ ] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اور دنیا کی مثال ایک مسافر کی سی ہے جو ایک درخت کے سائے میں آرام کرتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر روانہ ہو جاتا ہے۔“[ترمذی، الزھد، باب حدیث ” ما الدنیا الإکراکب استظل“: ۲۳۷۷، عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ ]