(آیت 74) ➊ فَلْيُقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ …: اوپر کی دو آیتوں میں جہاد سے پیچھے رہنے والوں اور دوسروں کو روکنے والوں، یعنی ” مُبَطِّئِيْنَ“ کی مذمت کے بعد اب مخلصین کو ترغیب دی جا رہی ہے۔” شَرَي يَشْرِيْ “ کے معنی بیچنا اور خریدنا دونوں آتے ہیں، یہاں ترجمہ بیچنے کا کیا گیا ہے اور اکثر مفسرین نے اسے ترجیح دی ہے، لیکن اگر اسے خریدنے کے معنی میں لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ جو منافق گھر میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے آخرت کے بدلے دنیا خرید رہے ہیں ان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلیں اور آخرت کا نقصان کر کے دنیا حاصل نہ کریں۔ (فتح القدیر، طبری)
➋ فَسَوْفَ نُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا: یعنی مسلمانوں پر لازم ہے کہ دنیا کی زندگی پر نظر نہ رکھیں، بلکہ آخرت کی خواہش رکھیں اور سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں ہر طرح نفع ہے۔ (موضح) مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کے دو ہی نتیجے ہو سکتے ہیں، شہادت یا فتح اور دونوں مسلمانوں کے حق میں خوش کن ہیں، کیونکہ دونوں ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ »[ التوبۃ: ۵۲ ]”کہہ دے تم ہمارے بارے میں دو بہترین چیزوں میں سے ایک کے سوا کس کا انتظار کرتے ہو۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والے اس شخص کے لیے ضمانت دی ہے جسے اس کے راستے میں جہاد اور اس کے کلمات کی تصدیق کے سوا کوئی چیز نہیں نکالتی کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا، یا اس کی رہائش گاہ پر لائے گا جہاں سے وہ نکلا تھا، ساتھ وہ اجر اور غنیمت بھی ہو گی جو اس نے حاصل کی۔“[ بخاری، فرض الخمس، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : أحلت لکم الغنائم: ۳۱۲۳، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ]