(آیت 63،62) یعنی جب اپنے کرتوتوں کے سبب عتاب الٰہی کا شکار ہو کر مصیبتوں میں پھنستے ہیں تو پھر آکر کہتے ہیں کہ کسی دوسری جگہ جانے سے مقصد یہ نہیں تھا کہ وہاں سے ہم فیصلہ کروائیں گے، یا آپ سے زیادہ ہمیں وہاں سے انصاف ملے گا، بلکہ مقصد صلح اور ملاپ کرانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرچہ ہم ان کے دلوں کے بھیدوں سے واقف ہیں، جس پر ہم انھیں جزا دیں گے، لیکن اے پیغمبر! آپ ان کے ظاہر کو سامنے رکھتے ہوئے در گزر ہی فرمائیے اور وعظ و نصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے سے ان کے باطن کی اصلاح کی کوشش جاری رکھیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے دشمنوں کی سازش کو عفو و درگزر، وعظ و نصیحت اور قول بلیغ ہی کے ذریعے سے ناکام بنانے کی سعی کی جانی چاہیے۔ یاد رہے! یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب منافق مغلوب تھے اور اسلام اور اس کے احکام اور عدالتیں غالب تھیں اور منافق دوسرے لوگوں سے فیصلہ کرانے پر پشیمان ہو کر عذر معذرتیں کرتے تھے۔