(آیت 52،51) ➊ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ …: عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”جبت سے مراد جادو اور طاغوت سے مراد شیطان ہے۔“[ بخاری، التفسیر، باب قولہ: «و إن کنتم مرضی أو علی سفر» قبل ح: ۴۵۸۳، معلقًا ] جوہری نے الصحاح میں فرمایا: جبت کا لفظ بت، کاہن، جادوگر اور اس قسم کی دوسری چیزوں پر استعمال ہوتا ہے۔“ اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ پرندوں کو اڑا کر شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچ کرفال گیری کرنا جبت میں شامل ہے۔ [ أبو داوٗد، الطب، باب فی الخط وزجر الطیر: ۳۹۰۷ ] اور طاغوت سے مراد شیطان ہے اور ہر وہ شخص جو گناہ کی دعوت دے اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ عرب میں بتوں کے ترجمان ہوتے تھے، جو ان کی زبان سے جھوٹ نقل کرتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے، ان کو طاغوت کہا جاتا تھا۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۵۲)۔
➋ یہودیوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخالفت ہوئی تو انھوں نے مشرکین مکہ سے رابطہ قائم کر لیا اور ان سے کہنے لگے کہ تمھارا دین مسلمانوں کے دین سے بہتر ہے۔ یہ سب کچھ اس حسد کی وجہ سے تھا کہ نبوت اور ریاستِ دینی ہمارے سوا دوسروں کو کیوں مل گئی، اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان کو الزام دیا۔