تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 49) فَتِيْلًا اس پتلے دھاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے کٹاؤ میں نظر آتا ہے۔ یہ محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں ہو گا۔ (طبری) یہود اپنے آپ کو پاک باز اور مقدس کہتے، کبھی کہتے جنت میں ہم ہی جائیں گے: « لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى » [ البقرۃ: ۱۱۱ ] جنت میں ہر گز داخل نہیں ہوں گے مگر جو یہودی ہوں گے یا نصاریٰ۔ کبھی اپنے آپ کو اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب بتاتے۔ (دیکھیے مائدہ:۱۸) اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی کہ کسی کو پاک باز قرار دینا تو اللہ کا کام ہے، اپنی تعریف آپ کرنا انسان کے لیے مہلک ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى » [ النجم: ۳۲ ] اپنے آپ کو پاک مت قرار دو، وہ زیادہ جانتا ہے کون متقی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے کی تعریف سے بھی، خصوصاً جب کوئی سامنے ہو یا مبالغہ کے ساتھ ہو منع فرمایا۔ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا: [ أَنْ نَحْثِيَ فِيْ وُجُوْهِ الْمَدَّاحِيْنَ التُّرَابَ ] [ مسلم، الزھد، باب النھی عن المدح…: ۳۰۰۲ ] ہم زیادہ تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈال دیں۔ اور فرمایا: [ إِيَّاكُمْ وَالتَّمَادُحَ فَإِنَّهُ ذَبْحٌ ] [ ابن ماجہ، الأدب، باب المدح: ۳۷۴۳ ] باہمی مدح گوئی سے بچو کیونکہ یہ ذبح کرنا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دوسرے کی تعریف کرتے ہوئے سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ وَيْحَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ ] تجھ پر افسوس! تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔ پھر فرمایا: اگر تم میں سے کسی کو کسی کی لا محالہ تعریف کرنی ہے تو اس طرح کہا کرے کہ میں اسے اس طرح گمان کرتا ہوں، اللہ کے سامنے کسی کا تزکیہ نہ کرے (پاک قرار نہ دے)۔ [ بخاری، الأدب، باب ما یکرہ من التمادح: ۶۰۶۱ ]



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.