(آیت 46) ➊ مِنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ …: اوپر کی آیت میں فرمایا کہ وہ گمراہی مول لیتے ہیں، اب اس آیت میں چند امور کے ساتھ اس گمراہی کی تشریح فرمائی۔ یعنی وہ تورات کے احکام میں تحریف کرتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۱۳، 41)۔سورۂ مائدہ میں ”عَنْ مَّوَاضِعِهٖ“ کے علاوہ ”مِنْ بَعْدِمَّوَاضِعِهٖ“ بھی ہے، جس کا معنی تحریف لفظی ہے، یہاں ”عَنْ مَّوَاضِعِهٖ“ ہے، اس سے مراد تحریف معنوی ہے، یعنی تاویلات فاسدہ سے کام لیتے ہیں، مثلاً قصۂ ذبیح کا تعلق اسماعیل علیہ السلام کے بجائے اسحاق علیہ السلام کے ساتھ جوڑنا۔ (رازی، شوکانی) ہمارے زمانے میں بھی تمام بدعتیوں کا شیوہ ہو گیا ہے کہ جو آیت یا حدیث امام، مجتہد یا پیرو مرشد کے قول کے خلاف نظر آتی ہے، اس کی تاویل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے حیا نہیں کرتے کہ پیرو مرشد اور امام و مجتہد تو معصوم نہ تھے، بخلاف پیغمبر کے کہ خطا سے ان کی حفاظت خود اللہ تعالیٰ فرماتا تھا۔ (وحیدی)
➋ لَيًّۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ: ”لَيًّۢا“ یہ ” لَوَي يَلْوِيْ لَيًّا “ سے ہے، بمعنی توڑنا مروڑنا، یعنی زبان کو توڑ مروڑ کر ”رَاعِيْنَا“ کہتے، جو توہین کا کلمہ ہے۔ دیکھیے بقرہ (۱۰۴) ان کی ایک گمراہی یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حکم سنتے ہیں تو ظاہر میں ” سَمِعْنَا “ کہتے ہیں (یعنی ہم نے سنا) مگر ساتھ ہی بے حد عداوت کی وجہ سے ”عَصَيْنَا“(نہیں مانا) بھی کہہ دیتے ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات کرتے تو کہتے ” اسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ “(سنو، تمھیں کوئی نہ سنائے) ظاہر میں یہ نیک دعا ہے کہ تم ہمیشہ غالب رہو، کوئی تمھیں بری بات نہ سنا سکے اور دل میں نیت رکھتے کہ تو بہرا ہو جائے، سن نہ سکے، ایسی شرارت کرتے۔ (رازی، ابن کثیر)
➌ وَ طَعْنًا فِي الدِّيْنِ: یعنی یہ سب حرکتیں کر رہے ہیں اور پھر دین میں طعن کی غرض سے کہتے ہیں کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو ہمارا فریب معلوم کر لیتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے خبث باطن کو ظاہر فرما دیا اور وہی طعن الٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے سچا ہونے کی پختہ دلیل بن گیا۔ (رازی)
➍ وَ لَوْ اَنَّهُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا …: یعنی یہ اگر اس قسم کی حرکات اور طعن کے بجائے ایسے کلمات استعمال کرتے جن میں شرارت کی آمیزش نہیں ہو سکتی اور اخلاص سے پیش آتے، مثلاً ”عَصَيْنَا“ کے بجائے ”اَطَعْنَا“ اور ”غَيْرَ مُسْمَعٍ“ کے بجائے صرف ”اسْمَعْ“ اور ”رَاعِنَا“ کے بجائے ”انْظُرْنَا“ تو ان کے حق میں بہتر ہوتا، مگر افسوس کہ یہ بہت ہی تھوڑے احکام پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس ”قَلِيْلًا“ یہاں مصدر محذوف ”إِيْمَانًا“ کی صفت ہے اور یہ معنی بھی ہے کہ ان میں سے بہت ہی کم لوگ ایمان لاتے ہیں، حتیٰ کہ یہودیوں میں سے دس بھی بمشکل ایمان لائے ہوں گے۔