تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 36)وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ: میاں بیوی کے معاملات کے بعد دوسرے حقوق والوں کے ساتھ احسان کا ذکر ہے، مگر ابتدا اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حکم اور شرک سے منع کرنے سے کی ہے، کیونکہ ہر کام کی ابتدا اس سے ہوتی ہے، جیسا کہ اس سورت کا موضوع عموماً عورتوں کے مسائل ہیں، مگر سورت کی ابتدا « اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ » سے کی ہے۔ (ابن عاشور)

وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْـًٔا: یعنی کسی چیز کو کسی صورت میں اس کا شریک نہ بنانا۔ اس کا شریک نہ بنانا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا مالک و مختار تسلیم کیا جائے اور اس کی کسی صفت میں کسی زندہ یا مردہ مخلوق کو شریک قرار نہ دیا جائے، تمام مرادیں اور حاجات اسی سے مانگی جائیں کہ وہی عالم میں متصرف ہے، کوئی اور نہیں۔

وَ بِالْوَالِدَيْنِ۠ اِحْسَانًا: توحید کا حکم دینے کے بعد درجہ بدرجہ رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں کے حقوق بیان فرمائے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اول حق اللہ تعالیٰ کا، پھر ماں باپ کا اور پھر ان سب کا درجہ بدرجہ۔(موضح) انسان کے عدم سے وجود میں آنے کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کے بعد ماں باپ بنتے ہیں، اس لیے ان کا حق پہلے رکھا۔

وَ بِذِي الْقُرْبٰى: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسکین پر صدقہ صرف صدقہ ہے اور رشتے دار پر صدقہ، صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔ [ ترمذی، الزکاۃ، باب ما جاء فی الصدقۃ…:۶۵۸ ] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص پسند کرے کہ اس کے لیے اس کا رزق فراخ کیا جائے اور اس کے نشان قدم میں تاخیر کی جائے تو چاہیے کہ وہ اپنی رشتے داری کو ملائے۔ [ مسلم، البر والصلۃ، باب صلۃ الرحم…: 2557/21 ]

وَ الْيَتٰمٰى: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیانی انگلی کو ملا کر بتایا۔ [ بخاری، الأدب، باب فضل من یعول یتیمًا: ۶۰۰۵، عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ]

➏ مسکین کی تشریح کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ کی آیت (۶۰)۔

وَ الْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ: قرابت والے ہمسائے سے مراد رشتے دار ہمسایہ ہے اور اجنبی ہمسائے سے مراد غیر رشتے دار ہمسایہ ہے۔ ہمسائیگی کے حقوق کی نگہداشت میں متعدد احادیث وارد ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام مجھے ہمیشہ پڑوسی کے متعلق وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث قرار دے دیں گے۔ [ بخاری، الأدب، باب الوصاءۃ بالجار: ۶۰۱۵، عن ابن عمر رضی اللہ عنھما ] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا: اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا۔ صحابہ نے پوچھا: کون شخص؟ فرمایا: وہ شخص جس کی ایذا رسانیوں سے اس کا ہمسایہ بے خوف نہ ہو۔ [ بخاری، الأدب، باب إثم من لا یأمن جارہ بوائقہ: ۶۰۱۶، عن أبی شریح رضی اللہ عنہ ]

وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ: پہلو کے ساتھی سے ہم نشین دوست، سفر کا ساتھی، بیوی، علم سیکھنے کے لیے آنے والے یا کاروباری سلسلے میں پاس آ بیٹھنے والے سب مراد ہیں۔

وَ ابْنِ السَّبِيْلِ: مسافر سے مراد اکثر سلف کے نزدیک مہمان بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا اکرام (عزت افزائی) کرے۔ [ بخاری، الأدب، باب من کان یؤمن…: ۶۰۱۸، عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ]

وَ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ: اس سے مراد غلام اور لونڈیاں ہیں، کیونکہ وہ ملکیت میں ہونے کی وجہ سے بالکل ہی بے بس ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیت کرتے ہوئے فرمایا: نماز اور تمھارے غلام (ان دونوں کا خاص خیال رکھنا)۔ [ أبو داوٗد، الأدب، باب فی حق المملوک: ۵۱۵۶، عن علی رضی اللہ عنہ ] آج کل اگرچہ کفار نے زنا پھیلانے اور دوسرے مذموم مقاصد کے لیے غلامی کو ختم کر دیا ہے اور جنگوں میں گرفتار ہونے والی عورتوں کو غلامی کی صورت میں ایک ایک آدمی کی ملکیت میں دینے کی بجائے کیمپوں میں رکھ کر ان پر فوجیوں کے ظلم و جبر اور آبرو ریزی کا دروازہ کھولا ہے، پھر نہ ان بیچاریوں کا کوئی غم خوار یا ذمہ دار ہوتا ہے نہ ان کی اولاد کا کوئی باپ، جب کہ غلامی کی صورت میں وہ ایک مالک کی غلامی میں رہ کر اس کی اولاد کی ماں بن کر عزت حاصل کرتی ہیں۔ مگر اس آیت پر عمل کرنے کے لیے آدمی کے ماتحت افراد جو اگرچہ غلام نہیں، حسن سلوک کے حق دار ہیں، مثلاً گھر، دکان اور کارخانوں کے ملازم اور نوکر چاکر وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ وہ جن لوگوں کی خوراک کا مالک ہے ان کی خوراک روک لے۔ [ مسلم، الزکوٰۃ، باب فضل النفقۃ…: ۹۹۶، عن ابن عمرو رضی اللہ عنھما ]

مُخْتَالًا فَخُوْرًا: مُخْتَالًا جو خرچ کرنے سے پہلے متکبر ہو اور فَخُوْرًا جو خرچ کرنے کے بعد فخر کرے۔ معلوم ہوا متکبر اور فخر کرنے والا نام و نمود کے لیے خرچ کرے گا، مگر اللہ کی خاطر خرچ نہیں کر سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت نہیں رکھتا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اکڑنے والے، شیخی باز بخیل ہوتے ہیں، کسی کو اپنے برابر نہیں سمجھتے کہ اس پر خرچ کریں۔ حقیقی سخی متواضع ہوتے ہیں۔ جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی وصیت فرمائیے۔ تو آپ نے (چند اہم امور کا تذکرہ کرنے کے بعد) فرمایا: تہ بند کو نیچے نہ لٹکاؤ، کیونکہ تہ بند کا (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانا تکبر کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ [ أحمد: 64/5، ح: ۲۰۶۶۳ ]



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.