(آیت 23) ➊ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ …: جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے، ایک تو پچھلی آیت میں بیان ہوا کہ باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنا حرام ہے، اب یہاں نسب کے سات حرام رشتوں کا ذکر ہے: (1) ماں: اس کے حکم میں نانی اور دادی اوپر تک، مثلاً، پڑدادی، پڑنانی شامل ہیں۔ (2) بیٹی: اس کے حکم میں پوتی اور نواسی نیچے تک آ جاتی ہیں۔ (3) بہن: سگی ہو یا علاتی یا اخیافی، بہرحال حرام ہے۔ (4) پھوپھی: اس میں دادا کی بہن اور نانا کی بہن بھی داخل ہے۔ (5) خالہ: یہ لفظ ماں، نانی اور دادی سب کی بہنوں کو شامل ہے۔ (7،6) بھتیجی اور بھانجی کے حکم میں ان کی بیٹیاں نیچے تک آ جاتی ہیں۔ (قرطبی)
➋ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِيْۤ اَرْضَعْنَكُمْ …: یعنی نسبی ماں اور بہن کی طرح دودھ کی ماں اور بہن بھی حرام ہیں۔ یہاں دو رشتوں کا ذکر ہے، مگر حدیث کی رو سے وہ ساتوں رشتے جو نسب سے حرام ہیں، دودھ سے بھی حرام ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہیں۔“[ بخاری، النکاح، باب: «و أمہاتکم التی أرضعنکم»: ۵۰۹۹، عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ]
قرآن مجید نے دودھ پینے کو حرمت کا سبب قرار دیا ہے، یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ کم از کم کتنی دفعہ دودھ پیا ہو، مگر مسلم میں ام الفضل اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک یا دو دفعہ دودھ پینا حرمت کا باعث نہیں ہوتا۔“[ مسلم، الرضاع، باب فی المصۃ والمصتان: ۱۴۵۰، ۱۴۵۱ ] عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ قرآن میں اترنے والے حکم میں تھا کہ دس دفعہ دودھ پینا جو معلوم ہو، حرام کرتا ہے، پھر وہ پانچ کے ساتھ منسوخ ہو گیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے اور وہ قرآن میں پڑھے جاتے تھے۔ [ مسلم، الرضاع، باب التحریم بخمس رضعات: ۱۴۵۲ ] یاد رہے کہ یہ دودھ پلانا اسی وقت معتبر ہو گا، جب دودھ پلانے کی مدت، یعنی دو سال کے اندر ہو۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۳۳)۔
➌ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىِٕكُمْ: اس میں بیویوں کی نانیاں اور دادیاں بھی اوپر تک شامل ہیں۔ بیوی کی ماں(ساس) حرام ہے، خواہ بیوی کو جماع سے پہلے طلاق دے دی ہو، یا اس کا انتقال ہو گیا ہو۔
➍ وَ رَبَآىِٕبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ: ”رَبَائِبُ“ یہ” رَبِيْبَةٌ “ کی جمع ہے، یعنی بیوی کی دوسرے خاوند سے جو لڑکی ہو وہ بھی حرام ہے، بشرطیکہ اپنی بیوی (اس لڑکی کی ماں) سے جماع کر لیا ہو، اگر قبل از جماع طلاق دے دی تو عورت کی لڑکی سے نکاح جائز ہے، اس پر علماء کا اتفاق ہے۔ (قرطبی، ابن کثیر)
”فِيْ حُجُوْرِكُمْ“(تمھاری گود میں) کی قید شرط کے طور پر نہیں، بلکہ اتفاقی ہے یعنی عام حالات میں ایسا ہوتا ہے، ورنہ اگر اس کی پرورش کسی اور جگہ ہوئی ہو تو بھی وہ حرام ہے۔
➎ وَحَلَاۤئِلُ أَبْنَاۤئِكُمْ: ”حَلَاۤئِلُ“ یہ ”حَلِيْلَةٌ“ کی جمع ہے، یعنی صلبی بیٹوں کی بیویاں نہ کہ منہ بولے بیٹوں کی بیویاں۔ دیکھیے سورۂ احزاب (37)۔
➏ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ.....: یہ محل رفع میں ہے، یعنی ”حُرِّمَ عَلَیْکُمُ الْجَمْعُ بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ“ کہ دو بہنوں کو، صلبی ہوں یا رضاعی، ایک وقت میں نکاح میں جمع رکھنا حرام ہے۔ قرآن مجید میں صرف دو بہنوں کو جمع کرنا منع ہے، مگر حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی کو ایک نکاح میں جمع نہ کیا جائے۔“[بخاری، النکاح، باب: لا تنکح المرأۃ علی عمتھا: 5109، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ] اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے علاوہ سنت بھی شریعت کا مستقل مأخذ ہے، قرآن میں صرف دو بہنوں کو جمع کرنا منع آیا ہے اور حدیث میں پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی کو جمع کرنا بھی منع آیا ہے، یہ بھی ماننا پڑے گا۔
➐ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ: یعنی پہلے جو رشتے ایسے ہو چکے ان کا کچھ گناہ نہیں، اس کے یہ معنی نہیں کہ ان کو برقرار رکھا جائے گا۔