(آیت 18) ➊ وَ لَيْسَتِ التَّوْبَةُ …: یعنی ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ کو اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ موت کے وقت اس کی روح حلق تک نہ پہنچ جائے۔“[ ترمذی، الدعوات، باب إن اللہ یقبل…: ۳۵۳۷، عن ابن عمر رضی اللہ عنہما وقال الألبانی حسن ] آخری وقت میں تو فرعون نے بھی توبہ کر لی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «آٰلْـٰٔنَ وَ قَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْن»[ یونس: ۹۱ ]”کیا اب؟ حالانکہ بے شک تو نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تو فساد کرنے والوں سے تھا۔“
➋ وَ لَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَ هُمْ كُفَّارٌ: یعنی جو لوگ مرتے دم تک کفر و شرک میں مبتلا رہتے ہیں اور موت کے آثار دیکھ کر توبہ کرنا چاہتے ہیں، ان کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَ كَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ(84) فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ فِيْ عِبَادِهٖ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ»[ المؤمن: ۸۴، ۸۵ ]”پھر جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو انھوں نے کہا ہم اس اکیلے اللہ پر ایمان لائے اور ہم نے ان کا انکار کیا جنھیں ہم اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے تھے۔ پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا، جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ یہ اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں گزر چکا اور اس موقع پر کافر خسارے میں رہے۔“ نیز دیکھیے سورۂ انعام (۱۵۸)