حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا کہ اہل کتاب اور مسلمان میں چرچہ ہونے لگا اہل کتاب تو یہ کہ کر اپنی فضیلت جتا رہے تھے کہ ہمارے نبی تمہارے نبی سے پہلے کے ہیں اور ہماری کتاب بھی تمہاری کتاب سے پہلے کی ہے اور مسلمان کہہ رہے تھے کہ ہمارے نبی خاتم الانبیاء ہیں اور ہماری کتاب تمام اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اس پر یہ آیتیں اتریں اور مسلمانوں کی سابقہ دین والوں پر فضیلت بیان ہوئی .
مجاہد سے مروی ہے کہ عرب نے کہا نہ تو ہم مرنے کے بعد جئیں گے نہ ہمیں عذاب ہو گا۔ اور آیت میں ہے «وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ»[2-البقرة:111] ” یہودیوں نے کہا صرف ہم ہی جنتی ہیں . “ یہی قول نصرانیوں کا بھی تھا اور کہتے تھے «وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً»[2-البقرة:80] ” آگ ہمیں صرف چند دن ستائے گی . “
آیت کا مضمون یہ ہے کہ صرف اظہار کرنے اور دعویٰ کرنے سے صداقت و حقانیت ثابت نہیں ہوتی بلکہ ایماندار وہ ہے جس کا دل صاف ہو اور عمل شاہد ہوں اور اللہ تعالیٰ کی دلیل اس کے ہاتھوں میں ہو، تمہاری خواہشیں اور زبانی دعوے کوئی وقعت نہیں رکھتے نہ اہل کتاب کی تمنائیں اور بلند باتیں، نجات کا مدار ہیں بلکہ وقار و نجات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی فرماں برداری اور رسولوں کی تابعداری میں ہے۔
برائی کرنے والے کسی نسبت کی وجہ سے اس برائی کے خمیازے سے چھوٹ جائیں ناممکن ہے بلکہ «فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ۔ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ» [99-الزلزلة:8] ” رتی رتی بھلائی اور برائی قیامت کے دن اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے دیکھ لیں گے . “
یہ آیت صحابہ رضی اللہ عنہم پر بہت گراں گذری تھی اور سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب نجات کیسے ہو گی؟ جبکہ ایک ایک عمل کا بدلہ ضروری ہے تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے بخشے ابوبکر یہ سزا وہی ہے جو کبھی تیری بیماری کی صورت میں ہوتی ہے کبھی تکلیف کی صورت میں کبھی صدمے اور غم و رنج کی صورت میں اور کبھی بلا و مصیبت کی شکل میں۔ [مسند احمد:11/1:صحیح بالشواھد]
اور روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر برائی کرنے والا دنیا میں بدلہ پالے گا۔ [مسند احمد:6/1:صحیح بالشواھد]
ابن مردویہ میں ہے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے اپنے غلام سے فرمایا دیکھو جس جگہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کو سولی دی گئی ہے وہاں تم نہ چلنا، غلام بھول گیا، اب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی نظر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمانے لگے واللہ جہاں تک میری معلومات ہیں میری گواہی ہے کہ تو روزے دار اور نمازی اور رشتے ناتے جوڑے والا تھا مجھے اللہ سے اُمید ہے کہ جو لغزشیں تجھ سے ہو گئیں ان کا بدلہ دنیا میں ہی مکمل ہو اب تجھے اللہ کوئی عذاب نہیں دے گا
پھر مجاہد رحمہ اللہ کی طرف دیکھ کر فرمانے لگے میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا جو شخص برائی کرتا ہے اس کا بدلہ دنیا میں ہی پالیتا ہے۔ [مسند ابویعلیٰ:18:صحیح بالشواھد]
دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ابن عمر علیہ السلام نے سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہا کو سولی پر دیکھ کر فرمایا اے ابوحبیب اللہ تجھ پر رحم کرے میں نے تیرے والد کی زبان سے یہ حدیث سنی ہے۔ [مسند بزار:2204:ضعیف]
ابن مردویہ میں ہے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں یہ آیت اتری، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھ کر سنایا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ غم ناک ہو گئے انہیں یہ معلوم ہونے لگا کہ گویا ہر ہر عمل کا بدلہ ہی ملنا جب ٹھہرا تو نجات مشکل ہو جائے گی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو صدیق تم اور تمہارے ساتھی یعنی مومن تو دنیا میں ہی بدلہ دے دئیے جاؤ گے اور ان مصیبتوں کے باعث تمہارے گناہ معاف ہو جائیں گے قیامت کے دن پاک صاف اٹھو گے ہاں اور لوگ کی برائیاں جمع ہوتی جاتی ہیں اور قیامت کے دن انہیں سزا دی جائے گی۔ یہ حدیث ترمذی نے بھی روایت کی ہے [سنن ترمذي:3039،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اور کہا ہے کہ اس کاراوی موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہے اور دوسرا راوی مولی بن سباع مجہول ہے اور بھی بہت سے طریق سے اس روایت کا ماحصل مروی ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت سب سے زیادہ ہم پر بھاری پڑتی ہے تو آپ نے فرمایا مومن کا یہ بدلہ وہی ہے جو مختلف قسم کی پریشانیوں اور تکلیفوں کی صورت میں اسے دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔[تفسیر ابن جریر الطبری:10537:ضعیف]
اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہاں تک کہ مومن اپنی نقدی جیب میں رکھ لے پھر ضرورت کے وقت تلاش کرے تھوڑی دیر نہ ملے پھر جیب میں ہاتھ ڈالنے سے نکل آئے تو اتنی دیر میں جو اسے صدمہ ہوا اس سے بھی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور یہ بھی اس کی برائیوں کا بدلہ ہو جاتا ہے یونہی مصائب دنیا اسے کندن بنا دیتے ہیں کہ قیامت کا کوئی بوجھ اس پر نہیں رہتا جس طرح سونا بھٹی میں تپا کر نکال لیا جائے اس طرح دنیا میں پاک صاف ہو کر اللہ کے پاس جاتا ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:10536:ضعیف]
ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا مومن کو ہرچیز میں اجر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ موت کی سختی کا بھی۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:3062/2:ضعیف]
مسند احمد میں ہے جب بندے کے گناہ زیادہ ہو جاتے ہیں اور انہیں دور کرنے والے بکثرت نیک اعمال نہیں ہوتے تو اللہ اس پر کوئی غم ڈال دیتا ہے جس سے اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ [مسند احمد:157/6:ضعیف]
سعید بن منصور لائے ہیں کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم پر اس آیت کا مضمون گراں گذرا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ٹھیک ٹھاک رہو اور ملے جلے رہو مسلمان کی ہر تکلیف اس کے گناہ کا کفارہ ہے یہاں تک کہ کانٹے کا لگنا بھی اس سے کم تکلیف بھی۔ [صحیح مسلم:2574] روایت میں ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم رو رہے تھے اور رنج میں تھے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ فرمایا۔
ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہماری ان بیماریوں میں ہمیں کیا ملتا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں اسے سن کر سیدنا کعب بن عجزہ رضی اللہ عنہ نے دعا مانگی کہ یا اللہ مرتے دم تک مجھ سے بخار جدا نہ ہو لیکن حج و عمرہ جہاد اور نماز با جماعت سے محروم نہ ہوں ان کی یہ دعا قبول ہوئی جب ان کے جسم پر ہاتھ لگایا جاتا تو بخار چڑھا رہتا۔ [مسند احمد:23/3:صحیح] رضی اللہ عنہا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کہا گیا کہ کیا ہر برائی کا بدلہ دیا جائے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں، اسی جیسا اور اسی جتنا لیکن ہر بھلائی کا بدلہ دس گنا کر کے دیا جائے گا پس اس پر افسوس ہے جس کی اکائیاں دہائیوں سے بڑھ جائیں۔ [ضعیف:اسکی سند میں محمد بن سائب کلب راوی ضعیف ہے] (ابن مردویہ)
حضرت حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد کافر ہیں جیسے اور آیت میں ہے «وَهَلْ نُجٰزِيْٓ اِلَّا الْكَفُوْرَ»[34-سبأ:17] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہاں برائی سے مراد شرک ہے۔ یہ شخص اللہ کے سوا اپنا کوئی ولی اور مددگار نہ پائے گا، ہاں یہ اور بات ہے کہ توبہ کر لے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ٹھیک بات یہی ہے کہ ہر برائی کو یہ آیت شامل ہے جیسے کہ احادیث گذر چکیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
بدعملیوں کی سزا کا ذکر کر کے اب نیک اعمال کی جزا کا بیان فرما رہا ہے بدی کی سزا یا تو دنیا میں ہی ہو جاتی ہے اور بندے کے لیے یہی اچھا ہے یا آخرت میں ہوتی ہے اللہ اس سے محفوظ رکھے، ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دونوں جہان کی عافیت عطا فرمائے اور مہربانی اور درگذر کرے اور اپنی پکڑ اور ناراضگی سے بچالے۔
اعمال صالحہ کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے اور اپنے احسان و کرم و رحم سے انہیں قبول کرتا ہے کسی مرد عورت کے کسی نیک عمل کو وہ ضائع نہیں کرتا ہاں یہ شرط ہے کہ وہ ایماندار ہو۔ ان نیک لوگوں کو وہ اپنی جنت میں داخل کرے گا اور ان کی حسنات میں کوئی کمی نہیں آنے دے گا۔
فتیل کہتے ہیں اس گٹھلی کے درمیان جو ہلکا سا چھلکا ہوتا ہے اس کو مگر یہ دونوں تو کھجور کے بیج میں ہوتے ہیں اور قطمیر کہتے ہیں اس بیج کے اوپر کے لفافے کو اور یہ تینوں لفظ اس موقعہ پر قرآن میں آئے ہیں۔
پھر فرمایا اس سے اچھے دین والا کون ہے؟ جو اپنے اعمال خالص اسی کے لیے کرے ایمانداری اور نیک نیتی کے ساتھ اس کے فرمان کے مطابق اس کے احکام بجا لائے اور ہو بھی وہ محسن یعنی شریعت کا پابند دین حق اور ہدایت پر چلنے والا رسول کی حدیث پر عمل کرنے والا ہر نیک عمل کی قبولیت کے لیے یہ دونوں باتیں شرط ہیں۔
یعنی خلوص اور وحی کے مطابق ہونا، خلوص سے یہ مطلب کہ فقط اللہ کی رضا مندی مطلوب ہو اور ٹھیک ہونا یہ ہے کہ شرعیت کی ماتحتی میں ہو، پس ظاہر تو قرآن حدیث کے موافق ہونے سے ٹھیک ہو جاتا ہے اور باطن نیک نیتی سے سنور جاتا ہے، اگر ان دو باتوں میں سے ایک بھی نہ ہو تو وہ عمل فاسد ہوتا ہے، اخلاص نہ ہونے سے منافقت آ جاتی ہے لوگوں کی رضا جوئی اور انہیں کھانا مقصود ہو جاتا ہے اور عمل قابل قبول نہیں رہتا .
سنت کے موافق نہ ہونے سے ضلالت وجہالت کا مجموعہ ہو جاتا ہے اور اس سے بھی عمل پایہ قبولیت سے گر جاتا ہے اور چونکہ مومن کا عمل ریاکاری اور شرعیت کے مخالفت سے بچا ہوا ہوتا ہے اس لیے اس کا عمل سب سے اچھا عمل ہو جاتا ہے جو اللہ کو پسند آتا ہے اور اس کی جزا کا بلکہ اور گناہوں کی بخشش کا سبب بن جاتا ہے۔