(آیت 8)یعنی وارثوں کو چاہیے کہ متروکہ مال میں سے کچھ حصہ بطور صدقہ و خیرات ان رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں کو بھی دیں جو خاندان میں موجود ہوں اور تقسیم کے وقت موقع پر پہنچ جائیں اور اگر وہ لوگ زیادہ حرص کریں تو ”ان سے اچھی بات کہو“ یعنی معذرت کرو کہ یہ وارثوں کا مال ہے، تمھارا حق نہیں ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ حکم ” فرائض“ یعنی وارثوں کے حصے مقرر ہونے سے پہلے تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لیے اب یہ بخشش نہیں ہے، اب صدقہ و خیرات میت کی وصیت ہی سے ہو سکتا ہے، لیکن بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہ آیت محکم ہے، منسوخ نہیں اور وارثوں کو حکم ہے کہ تقسیم ترکہ کے وقت ان رشتہ داروں سے صلہ رحمی کریں۔ جن کا میراث میں حصہ نہیں جب وہ تقسیم کے وقت آ جائیں۔ [ بخاری، التفسیر، باب قول اللہ عزو جل: «و إذا حضر القسمۃ …»: ۲۷۵۹ ]