(آیت 173) ➊ اَلَّذِيْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ …: یہ آیت بھی واقعہ حمراء الاسد ہی سے متعلق ہے اور وہ اس طرح کہ جب ابوسفیان کو جو اس وقت مشرکین کی قیادت کر رہا تھا، مسلمانوں کے تعاقب کی اطلاع ملی تو اس نے ایک تجارتی قافلے کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ چیلنج بھیجا کہ میں نے بڑا لا ؤ لشکر جمع کر لیا ہے اور میں مدینہ پر پھر سے حملہ کرنے والا ہوں، یہ سن کر مسلمانوں میں خوف اور کمزوری کے بجائے مزید ایمانی قوت پیدا ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے کہا: «حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ»”ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔“(ابن کثیر)
➋ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ «حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ» کا کلمہ ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہا تھا جب انھیں آگ میں ڈالا گیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہا جب لوگوں نے کہا: «اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِيْمَانًا»”بے شک لوگوں نے تمھارے لیے (فوج) جمع کر لی ہے، سو ان سے ڈرو، تو اس بات نے انھیں ایمان میں زیادہ کر دیا“ اور انھوں نے کہا: «حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ» ”ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔“[ بخاری، التفسیر، باب قولہ: «الذین قال لہم الناس…»: ۴۵۶۳ ]
➌ فَزَادَهُمْ اِيْمَانًا: اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کا ایمان مشرکین کے چیلنج کرنے سے بڑھ گیا، ظاہر ہے وہ پہلے نسبتاً کم تھا، تب ہی بڑھا۔ اس سے ایمان کی کمی بیشی ثابت ہوتی ہے اور ان لوگوں کی تردید ہو گئی جو کہتے ہیں کہ ہمارا ایمان جبریل علیہ السلام اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ایمان جیسا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان جس قدر بڑھتا ہے جذبۂ جہاد بھی بڑھتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نہ جنگ کی نہ اپنے دل سے جنگ کی بات کی، وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرے گا۔“[ مسلم، الإمارۃ، باب ذم من مات و لم یغز … ۱۹۱۰۔ أبو داوٗد، الجہاد، باب کراھیۃ ترک الغزو: ۲۵۰۲، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ]