(آیت 164) ➊ لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ …: اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے اور انسانوں ہی میں سے ہونے کو ایک احسان کے طور پر بیان کر رہا ہے اور فی الواقع یہ احسان عظیم ہے کہ اس طرح ایک تو وہ اپنی قوم کی زبان اور لہجے ہی میں اللہ کا پیغام پہنچائے گا، جسے سمجھنا ہر شخص کے لیے آسان ہو گا، دوسرے لوگ ہم جنس ہونے کی وجہ سے اس سے مانوس اور اس سے قریب ہوں گے اور تیسرے انسان کے لیے انسان، یعنی بشر کی پیروی تو ممکن ہے، لیکن فرشتوں کی پیروی اس کے بس کی بات نہیں، نہ فرشتوں میں وہ کمزوریاں اور ضرورتیں پائی جاتی ہیں جو انسان میں ہیں اور نہ فرشتہ انسان کے وجدان و شعور کی گہرائیوں اور باریکیوں کا ادراک کر سکتا ہے۔ اس لیے اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو وہ ان ساری ضروریات سے محروم ہوتے جو تبلیغ و دعوت کے لیے لازمی ہیں، اس لیے جتنے انبیاء بھی آئے سب کے سب بشر ہی تھے۔ قرآن مجید نے ان کی بشریت کو خوب کھول کر بیان کیا ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ یوسف (۱۰۹)، سورۂ فرقان (۲۰)، سورۂ حم السجدہ (۶) اور سورۂ کہف کی آخری آیت۔
➋ اوپر کی آیت میں جب یہ بیان فرما دیا کہ غلول اور خیانت ایک نبی کی شان سے بعید ہے، نبوت و خیانت جمع نہیں ہو سکتے، تو اب اس آیت میں اسی کی مزید تاکید فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک پاکیزہ اور اعلیٰ نصب العین دے کر مبعوث کیا گیا ہے، جو یہ ہے کہ تم پر اس کی آیات پڑھے، تمھیں کتاب و حکمت (سنت) کی تعلیم دے اور رذائل سے پاک کرے، پھر ایسی پاکیزہ ہستی کی طرف، جو اتنے عظیم مقصد کے حصول کی خاطر مبعوث ہوئی ہو، کوئی عقل مند آدمی غلول کی نسبت کیسے کر سکتا ہے، یا کسی کے دل میں یہ خیال کیسے آسکتا ہے کہ آپ خیانت جیسے کبیرہ اور مذموم فعل کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی احادیث میں اس گناہ کو کبیرہ قرار دیا ہے، حتیٰ کہ ابن لتبیہ والی حدیث میں حکام کے ہدیوں (تحائف) کو بھی غلول شمار کیا۔ [ بخاری، الحیل، باب احتیال العامل…: ۶۹۷۹ ]”وَ اِنْ كَانُوْا“ یہ اصل میں ”وَ اِنَّهُمْ كَانُوْا“ تھا، دلیل اس کی ”لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ“ پر لام تاکید کا آنا ہے۔