(آیت 135) ➊ وَ الَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً …: یعنی اگر بشری تقاضے کے تحت ان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو وہ فوراً اللہ تعالیٰ کو یاد کر کے توبہ و استغفار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی نے گناہ کیا تو کہا: ”اے میرے رب! میں نے ایک گناہ کیا ہے، تو مجھے وہ بخش دے۔“ تو اللہ عزوجل نے فرمایا: ”میرے بندے نے ایک گناہ کیا تو اس نے جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اس پر پکڑتا ہے، سو میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔“ پھر اس نے ایک اور گناہ کیا اور کہا: ”اے میرے رب! میں نے ایک اور گناہ کیا ہے، تو اسے بخش دے۔“ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میرے بندے نے جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اس پر پکڑتا ہے، (فرشتو! گواہ رہو کہ) میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، پھر بندہ رکا رہا جتنا اللہ نے چاہا پھر اس نے ایک اور گناہ کیا تو کہا: ”اے میرے رب! میں نے ایک اور گناہ کیا ہے، تو اسے بخش دے۔“ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میرے بندے نے جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اس پر پکڑتا ہے (فرشتو! گواہ رہو کہ) میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، سو وہ جو چاہے کرے۔“[ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالٰی: «یریدون أن یبدلوا کلام اللہ»: ۷۵۰۷۔ مسلم، التوبۃ، باب قبول التوبۃ…: ۲۷۵۸ ]
➋ وَ لَمْ يُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا …: اصرار کے معنی ہیں اڑ جانا اور بے پروائی سے گناہ کرتے جانا۔ نہ ان پر ندامت کا اظہار کرنا اور نہ توبہ کرنا۔ ورنہ اگر کسی شخص سے سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد گناہ سرزد بھی ہو جاتا ہے تو اسے اصرار نہیں کہتے، جیسا کہ پچھلے فائدے میں گزرا ہے۔ ”وَ هُمْ يَعْلَمُوْنَ“ یعنی کسی کام کے گناہ ہونے کا علم ہونے پر اس پر اصرار نہیں کرتے۔ مزید دیکھیے سورۂ نساء (۱۷، ۱۸)۔