(آیت 113) ➊ لَيْسُوْا سَوَآءً …: یعنی گو اہل کتاب کی اکثریت فاسق ہے مگر سب ایک جیسے نہیں، ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ایمان لے آتے ہیں۔ طبری اور ابن ابی حاتم نے حسن سندوں کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ جب عبد اللہ بن سلام، ثعلبہ بن سعید، اسید بن سعید، اسد بن عبید رضی اللہ عنہم اور ان کے دوسرے ساتھی مسلمان ہوئے اور اسلام میں رغبت رکھ کر پکے ہو گئے تو یہودی مولوی اور ان کے بے ایمان لوگ کہنے لگے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پیچھے صرف ہمارے برے لوگ ہی لگے ہیں، اگر وہ ہمارے اچھے لوگ ہوتے تو اپنے آباء کا دین چھوڑ کر غیر کی طرف نہ جاتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات (۱۱۳، ۱۱۴) نازل فرمائیں۔ یہ الفاظ طبری کے ہیں۔ اہل کتاب کے ان اچھے لوگوں کا ذکر سورۂ آل عمران (۱۹۹)، بنی اسرائیل (۱۰۷ تا ۱۰۹) اور سورۂ بقرہ (۱۲۱) میں بھی ہے۔
➋ اُمَّةٌ قَآىِٕمَةٌ …: یعنی رات کو قیام کرتے ہیں اور تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ ”قَآىِٕمَةٌ“ کا ایک معنی ” مُسْتَقِيْمَةٌ “ ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماں بردار ہیں اور ان کی شریعت پر قائم ہیں۔