(آیت110) ➊ كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ …: یعنی یہ امت ہر امت سے بہتر ہے انھی دو صفات میں، امر بالمعروف یعنی جہاد اور ایمان یعنی توحید کا تقید (پابندی) اس قدر کسی اور دین میں نہیں۔ (موضح) ان دو صفتوں سے پہلے ایک اور صفت بھی ذکر فرمائی ہے اور وہ ہے ”اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ “ یعنی یہ امت پیدا ہی لوگوں کی خیر خواہی اور اصلاح کے لیے کی گئی ہے۔ یاد رہے! امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مراد جہاد ہے، وہ ہاتھ سے ہو یا زبان سے یا دل سے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی یہی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: [ خَيْرَ النَّاسِ لِلنَّاسِ تَأْتُوْنَ بِهِمْ فِي السَّلاَسِلِ فِيْ أَعْنَاقِهِمْ حَتّٰي يَدْخُلُوْا فِي الإِسْلاَمِ ][ بخاری، التفسیر، باب: «کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس»: ۴۵۵۷ ]”تم لوگوں کے حق میں تمام لوگوں سے بہتر ہو کہ ان کی گردنوں میں زنجیریں ڈال کر لاتے ہو، حتیٰ کہ وہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔“ معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم ستر (۷۰) امتوں کو پورا کر رہے ہو، جن میں سے تم اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بہتر اور سب سے معزز ہو۔“[ أحمد: 447/4، ح: ۲۰۰۳۷۔ ترمذی، التفسیر، باب ومن سورۃ آل عمران: ۳۰۰۱ و حسنہ الألبانی ]
➋ کچھ لوگ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے لوگ خود بخود برائی چھوڑ دیں گے، اگر ایسا ہوتا تو برائی سے منع کرنے کا حکم نہ ہوتا اور سب سے بڑی برائی شرک و کفر کو زبان سے روکنے کے ساتھ قتال (لڑنا) فرض نہ ہوتا۔
➌ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ: یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صورت میں دنیا کے کاروبار کا جو نقصان ہوتا ہے تم اس کی پروا نہیں کرتے،
➍ خَيْرَ اُمَّةٍ: اس کا ایک معنی پہلے گزر چکا کہ یہ امت تمام امتوں سے بہتر ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ خطاب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہے کہ تم پوری امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر ہو، کیونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر(جہاد) اور ایمان باللہ (توحید خالص کا عقیدہ) تم میں بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں۔ اس سے صحابہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے اور ان پر کفر کا فتویٰ لگانے والوں کے منہ میں خاک پڑتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ الفاظ کے لحاظ سے دونوں معنی درست ہیں اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے۔
➎ بہترین امت ہونے کا وصف چند شرطوں کے ساتھ مشروط ہے، یعنی لوگوں کی خیر خواہی و اصلاح، امر بالمعروف و نہی عن المنکر (جہاد) اور ایمان باللہ (توحید خالص)، جب اس امت میں یہ چیزیں نہیں رہیں گی تو وہ بہترین امت ہونے کے وصف سے محروم ہو جائے گی، جیسا کہ یہود کے بارے میں آتا ہے: «كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ» [ المائدۃ: ۷۹ ]”وہ ایک دوسرے کو کسی برائی سے جو انھوں نے کی ہوتی، روکتے نہ تھے۔“ جیسا کہ اب اس امت کا حال ہو رہا ہے۔
➏ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ …: اس آیت میں اہل کتاب کو اسلام لانے کی ترغیب ہے اور اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ان میں سے کچھ مومن ہیں، مگر اکثر فاسق ہیں اور یہ اللہ کی مشیت ہے جس کی حکمت وہی جانتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ مَاۤ اَكْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ» [ یوسف: ۱۰۳ ]”اور اکثر لوگ خواہ تو حرص کرے، ہر گز ایمان لانے والے نہیں۔“ اس سے جمہوریت کا بھی رد ہوتا ہے خواہ وہ کسی بھی قسم کی ہو۔