تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 103)وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا …: مومنوں کو اہل کتاب کی اطاعت سے دور رہنے کی نصیحت فرما کر اب یہاں سے چند اصولی باتوں کا حکم دیا جا رہا ہے، جن کی پابندی سے انسان ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا جیسے ڈرنے کا حق ہے، سب کا مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا اور جدا جدا نہ ہونا اور اللہ کی نعمت، یعنی دلوں میں الفت ڈالنے کو یاد رکھنا۔

➋ اللہ کی رسی سے مراد قرآن ہے، درحقیقت یہ ایک استعارہ ہے کہ اگر کچھ لوگ پہاڑ کی بلندی سے کسی گہری کھائی میں گر پڑیں تو انھیں نکالنے کے لیے اوپر سے رسی پھینکی جاتی ہے۔ اب جو لوگ مل کر اس رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں وہ اس رسی کے ساتھ اوپر نکل آئیں گے اور دوسرے گڑھے ہی میں رہ جائیں گے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے گمراہی کے گڑھے سے نکالنے کے لیے آسمان سے قرآن اتارا ہے، جس کے ساتھ وحی الٰہی، یعنی سنت رسول بھی اتاری ہے۔ مسلمان موجودہ فرقہ بندیوں سے بھی اسی صورت میں نجات پا سکتے ہیں کہ قرآن مجید کو لائحہ عمل قرار دیں اور ذاتی خیالات و آراء کو ترک کر کے سنت کی روشنی میں قرآن کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور مشائخ و ائمہ کے اقوال و فتاویٰ کو قرآن و سنت کا درجہ دے کر گروہ بندی اختیار نہ کریں۔

اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً …: اسلام سے پہلے اوس اور خزرج ہی نہیں بلکہ تمام عرب کفر و شرک اور باہمی عداوتوں میں مبتلا تھے۔ اسی کو یہاں آگ کے گڑھے کے کنارے پر ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اسلام کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے تمھیں آگ میں گرنے سے بچا لیا اور عداوت کے بجائے اخوت پیدا کر دی۔ اگر اس عداوت کا اندازہ کرنا ہو تو سورۂ انفال (۶۲، ۶۳) کا مطالعہ کریں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.