تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 77) اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ …: عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بازار میں کچھ سامانِ تجارت لا کر رکھا، پھر اس پر قسم کھا کر کہا کہ میں نے اس سامان کے اتنے روپے دیے، حالانکہ اس نے اتنے روپے نہیں دیے تھے (یا کہا کہ مجھے اس سامان کے اتنے روپے مل رہے تھے، حالانکہ اسے اتنے روپے نہیں مل رہے تھے) قسم کا مقصد یہ تھا کہ کسی مسلمان کو اس میں پھنسا لے تو اس پر یہ آیت اتری: «اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيْلًا» ‏‏‏‏ [بخاری، البیوع، باب ما یکرہ من الحلف فی البیع: ۲۰۸۸، ۴۵۵۱ ] یعنی جو لوگ بدعہدی، خیانت اور جھوٹی قسمیں کھا کر لوگوں کا مال کھاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر ایسا ناراض ہو گا کہ نہ آخرت میں ان کا کچھ حصہ ہو گا، نہ اللہ ان سے کلام کرے گا، نہ انھیں (نظر رحمت سے) دیکھے گا، نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے جھوٹی قسم کھائی، تاکہ اس کے ساتھ کسی مسلمان کا مال ہڑپ کر لے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر سخت غصے ہو گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں (زیر تفسیر) یہ آیت اتاری۔ [بخاری، التفسیر، باب إن الذين يشترون بعهد الله …: ۴۵۴۹ ]

ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن سے نہ تو اللہ تعالیٰ کلام کرے گا، نہ قیامت کے دن ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا۔ (وہ یہ ہیں) اپنے کپڑے کو لٹکانے والا، احسان کر کے جتلانے والا اور اپنے سودے کو جھوٹی قسم کے ساتھ بیچنے والا۔ [مسلم، الإیمان، باب بیان غلظ تحریم الإسبال …: ۱۰۶، عن أبی ذر رضی اللہ عنہ ]



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.