(آیت 49) ➊ اَنِّيْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ: یعنی جب وہ رسول بن کر آئیں گے تو ان کی دعوت یہ ہو گی جو آگے بیان ہوئی ہے۔
➋ اَنِّيْۤ اَخْلُقُ: یہاں ” خَلَقَ “ کا لفظ ظاہری شکل و صورت بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تصویر بنانے والوں سے فرمائے گا: [ اَحْيُوْا مَا خَلَقْتُمْ ]”تم نے جو خلق کیا اسے زندہ کرو۔“[بخاری، البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ…: ۲۱۰۵ ] پیدا کرنے اور زندگی دینے کے معنی میں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
➌ بِاِذْنِ اللّٰهِ: یہاں ”بِاِذْنِ اللّٰهِ“ کا لفظ بار بار لانے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو عیسیٰ علیہ السلام یہ معجزات نہ دکھا سکتے اور یہی ہر نبی کے معجزات کا حال ہے کہ وہ اللہ ہی کے اختیار میں ہوتے ہیں۔
➍ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر نبی کو اس کے زمانے کے مناسب حال معجزات عطا فرمائے۔ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادو اور جادوگروں کا زور تھا، سو اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ معجزات دے کر بھیجا جن سے تمام جادوگر دنگ رہ گئے اور ان کی عقل چکرا گئی، بالآخر وہ جادوگر از خود مسلمان ہوئے اور اسلام کی راہ میں سولی چڑھنے تک کے لیے تیار ہو گئے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب اور علوم طبعیہ (سائنس) کا چرچا تھا، سو اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ معجزات عطا فرمائے جن کے سامنے تمام اطباء اور سائنسدان اپنے عاجز اور درماندہ ہونے کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فصاحت وبلاغت اور شعر و ادب کا ڈنکا بجتا تھا، سو اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ کتاب نازل فرمائی جس نے تمام فصحاء و بلغاء کی گردنیں خم کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں تین طرح کا چیلنج دیا، پہلے پورے قرآن کی مثل لانے کا (بنی اسرائیل: ۸۸) پھر دس سورتیں اس جیسی لانے کا (ہود: ۱۳) پھر اس جیسی کوئی ایک سورت لانے کا (یونس: ۳۸) مگر وہ بار بار چیلنج سننے کے باوجود اس جیسی دس سورتیں تو کجا، اس جیسی ایک سورت بھی پیش نہ کر سکے۔ کیوں؟ اس لیے کہ پروردگار کا کلام مخلوق کے کلام سے مماثلت نہیں رکھتا۔ (ابن کثیر، رازی)