(آیت 44) ➊ ذٰلِكَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ …: اس آیت سے پانچ مسئلے واضح طور پر ثابت ہوئے، پہلا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے، ورنہ انھیں غیب کی یہ خبریں وحی کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں ہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ تو اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھا۔ تیسرا یہ کہ اولیاء اور دوسرے انبیاء بھی غیب دان نہیں، ورنہ بیت المقدس کے خدام اور وقت کے پیغمبر زکریا علیہ السلام کو قرعہ ڈالنے کی ضرورت نہ تھی۔ چوتھا یہ کہ جب چیز ایک ہو اور اس کے حق دار کئی ہوں تو اس وقت قرعہ کے ذریعے سے فیصلہ شریعت کا فیصلہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ”كِتَابُ الشَّهَادَاتِ“ میں باب باندھا ہے: ” بَابُ الْقُرْعَةِ فِي الْمُشْكِلاَتِ “”مشکل معاملات میں قرعہ اندازی کا بیان “ اور اس میں کئی احادیث لائے ہیں۔ بعض لوگوں نے قرعہ کو جوا قرار دیا ہے، یہ ان کی غلطی ہے۔ ہاں، اگر اس مقصد کے لیے قرعہ ڈالا جائے کہ یہ کام کروں یا نہ کروں تو یہ قرعہ نہیں بلکہ فال نکالنا ہے جو حرام ہے۔ [ديكهيے سورهٔ مائده:۹۰]
پانچواں یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اس واقعہ کے وقت نہ موجود تھے، نہ اسے جانتے تھے، آپ کا وحی الٰہی سے اس واقعہ کو بیان کرنا آپ کے رسول برحق ہونے کی دلیل ہے۔
➋ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ: اس قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مریم علیہا السلام یہودیوں کے بہت بڑے عالم عمران کی بیٹی تھیں، جب ان کی والدہ نے انھیں اپنی عبادت گاہ کی نذر کیا تو عبادت گاہ کے خدام میں جھگڑا ہوا کہ ان کی سرپرستی اور نگرانی کا شرف کون حاصل کرے، تو انھوں نے قرعہ اندازی کی اور قرعہ زکریا علیہ السلام کے نام نکلا۔ (ابن کثیر، قرطبی)