(آیت 24)ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ …: یعنی جس چیز نے انھیں حق سے کھلم کھلا انحراف اور بڑے سے بڑے گناہ کا بے شرمی سے ارتکاب کر لینے پر دلیر و جری بنا دیا ہے وہ یہ ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور سزا کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ ان کے آباء و اجداد انھیں طرح طرح کی خام خیالیوں اور جھوٹی تمناؤں میں مبتلا کر گئے ہیں، کبھی وہ اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں(مائدہ: ۱۸) کبھی کہتے ہیں کہ جنت بنی ہی ہمارے لیے ہے [بقرہ: ۱۱۱ ] اور کبھی کہتے ہیں کہ اگر ہمیں تھوڑی بہت سزا ہوئی بھی تو چند دن سے زیادہ نہیں ہو گی، ہمارے بزرگوں کا، جن کے ہم نام لیوا ہیں اور جن کا ہم دامن پکڑے ہوئے ہیں ان کا اللہ پر اتنا زور ہے کہ وہ چاہے بھی تو ہمیں سزا نہیں دے سکے گا۔ (مزید دیکھیے بقرہ: ۷۸ تا ۸۰) اور نصاریٰ نے تو مسئلۂ کفارہ گھڑ کے گناہوں پر سزا کا سارا معاملہ ہی ختم کر دیا ہے۔ یعنی مسیح علیہ السلام اپنی امت کے گناہوں کی پاداش میں صلیب پر چڑھ گئے جس سے امت کے تمام گناہ معاف ہو گئے۔ اب اتنا ہی کافی ہے کہ عیسائی ہو جاؤ پھر جو مرضی کرتے رہو، مسیح علیہ السلام سب گناہوں کا کفارہ ادا کر چکے ہیں۔
یہی حال اب بہت سے مسلمانوں کا ہو گیا، کوئی شیخ جیلانی کو زبردستی موت کے فرشتے سے روحیں چھین لینے والا بنا بیٹھا ہے اور کوئی حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو اپنے نام لیواؤں کے گناہوں کا کفارہ سمجھ بیٹھا ہے۔ [فَإِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی ]