(آیت 14) ➊ ”الشَّهَوٰتِ“ یہ ” شَهْوَةٌ “ کی جمع ہے جس کا معنی ہے ”کسی مرغوب چیز کی طرف نفس کا کھچ جانا“ یہاں ”الشَّهَوٰتِ“ سے مراد وہ چیزیں ہیں جو طبیعت کو مرغوب ہیں، یعنی مصدر بمعنی اسم مفعول” مُشْتَهَيَاتٌ “ ہے اور ”مِنَ النِّسَآءِ“ میں ”مِنْ“ بیانیہ ہے، یعنی وہ چیزیں یہ ہیں۔ ”وَ الْقَنَاطِيْرِ“ کا واحد” قِنْطَارٌ “ ہے، اس کی مقدار میں مختلف اقوال ہیں، مگر سب کا حاصل یہ ہے کہ مال کثیر کو ” قِنْطَارٌ“ کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) ہماری زبان میں اس کا ترجمہ ”خزانے“ ہو سکتا ہے۔ ”مَتَاعُ“ اس سامان کو کہا جاتا ہے جس سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ حاصل یہ کہ انسان ان چیزوں کی محبت میں پھنس کر اللہ اور اس کے دین سے غافل ہو جائے اور انھیں تفاخر و زینت کا ذریعہ سمجھے اور غرور وتکبر پر اتر آئے تو یہ تمام چیزیں مذموم ہیں، ورنہ اگر ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت خیال کرتے ہوئے ذریعۂ آخرت بنایا جائے اور شریعت کی حدود میں رہ کر ان سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ مذموم و مبغوض نہیں بلکہ نہایت مرغوب و محمود ہیں۔ اصل چیز نیت اور عمل ہے، اس لیے حدیث میں ایک طرف تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے: ”میرے بعد مردوں کے لیے کوئی فتنہ عورتوں سے بڑھ کر نقصان دہ نہیں۔“[بخاری، النکاح، باب ما یتقی من شؤم المرأۃ …: ۵۰۹۶، عن أسامۃ رضی اللہ عنہ ] اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: ”دنیا متاع (فائدہ اٹھانے کا سامان) ہے اور اس کی بہترین متاع نیک عورت ہے۔“[مسلم، النکاح، باب خیر متاع الدنیا … ۱۴۶۹، عن ابن عمرورضی اللہ عنہما] اور یہ بھی فرمایا: ”دنیا میں سے عورت اور خوشبو میرے لیے پسندیدہ بنا دی گئی ہیں۔“[نسائی، عشرۃ النساء، باب حب النساء: ۳۳۹۱، عن أنس رضی اللہ عنہ، قال الألبانی حسن صحیح ] آیت کے آخر میں ان کو دنیاوی زندگی کا سامان قرار دے کر دنیاوی زندگی سے بے رغبتی اور آخرت میں رغبت پر زور دیا ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی)
➋ ”الْخَيْلِ“ یہ اسم جمع ہے،”خُيَلاَءٌ “ سے مشتق ہے، جس کا معنی تکبر ہے۔ گھوڑے کی چال میں ایک طرح کا تکبر پایا جاتا ہے۔ ”الْمُسَوَّمَةِ“ یہ”سِيْمَا “ یا ”سِيْمِيَاءُ “ سے مشتق ہو تو نشان لگائے ہوئے اور ” سَوْمٌ “ سے مشتق ہو تو چرنے کے لیے چھوڑے ہوئے گھوڑے۔ ”الْاَنْعَامِ“ یہ ”نَعَمٌ “ کی جمع ہے، اونٹ، گائے، بکریاں وغیرہ اور اکثر اونٹوں پر بولا جاتا ہے۔