(آیت 7) ➊ ایک جگہ قرآن مجید کی تمام آیات کو محکم کہا گیا ہے، چنانچہ فرمایا: «الٓرٰ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ»[ھود: ۱ ]” الٓرٰ، ایک کتاب ہے جس کی آیات محکم کی گئیں۔“ اور دوسری جگہ تمام آیات کو متشابہ، چنانچہ فرمایا: «اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا» [الزمر: ۲۳ ]”اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی، ایسی کتاب جو آپس میں ملتی جلتی ہے۔“ اور یہاں بعض آیات کو متشابہ قرار دیا ہے، بعض کو محکم، مگر اس میں کوئی تعارض نہیں۔ تمام آیات کے محکم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پورے قرآن میں کوئی کمی یا خرابی نہیں، نہایت مضبوط اور محکم ہے اور متشابہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تمام آیات فصاحت و بلاغت اور مضامین و معانی میں ایک دوسری سے ملتی جلتی ہیں۔ اس جگہ جو فرمایا کہ بعض محکم ہیں اور بعض متشابہ، تو محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن کا مفہوم بالکل واضح اور صریح ہے، ان میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ان کو ” اُمُّ الْكِتٰبِ “ قرار دیا ہے، یعنی اصل اور بنیاد۔ انھی آیات میں لوگوں کو دین کی طرف دعوت دی گئی ہے اور انھی میں دین کے بنیادی عقائد، عبادات اور احکام بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں مذکور نصیحتیں اور عبرتیں بھی ان میں شامل ہیں، انسانی گمراہیوں کی نشاندہی بھی ان آیات میں کی گئی ہے۔ جبکہ متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں جو ملتے جلتے کئی معانی کا احتمال رکھتی ہیں، اس لیے ان کا اصل مرادی معنی سمجھنے میں لوگوں کو اشتباہ ہو جاتا ہے، یا ان میں تاویل کی گنجائش نکل سکتی ہے، یا جن میں ایسے حقائق کا بیان ہے جن پر مجمل طور پر ایمان لانا تو ضروری ہے لیکن ان کی تفصیلات کو جاننا نہ انسان کے لیے ضروری ہے اور نہ عقلی استعداد کے ساتھ ممکن ہے۔ تفسیر وحیدی میں لکھا ہے: ”صفاتِ الٰہیہ کے منکرین تو اللہ تعالیٰ کے استواء (عرش پر ہونے کو) اور اس کے ید (ہاتھ) اور اس کے نزول (ہر رات آسمان دنیا پر اور قیامت کے دن زمین پر اترنے) کو متشابہات قرار دے کر ان کے معنی سمجھنے ہی کو ناممکن قرار دیتے ہیں، مگر اہل حدیث انھیں محکم مانتے ہیں، ان کے معانی کو واضح سمجھتے ہیں، البتہ کیفیت کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔“
➋ اس آیت میں نصاریٰ کو بھی تنبیہ ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ”كَلِمَتُهٗ“ اور ”رُوْحٌ مِّنْهُ“ وغیرہ آیات سے عیسیٰ علیہ السلام کے الٰہ ہونے اور اللہ کا بیٹا ہونے پر تو استدلال کرتے ہیں مگر دوسری آیات: «اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ» [الزخرف: ۵۹ ]” نہیں ہے وہ مگر ایک بندہ جس پر ہم نے انعام کیا۔“ اور «اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ»[آل عمران: ۵۹ ]”بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے “ ان پر اور ان جیسی دیگر آیات پر دھیان نہیں دیتے۔ (ابن کثیر)
➌ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ: یعنی وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اور جن کا مشغلہ ہی محض فتنہ جوئی ہوتا ہے وہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں اور چونکہ وہ کئی معانی کا احتمال رکھتی ہیں اس لیے وہ ان سے وہ معنی نکالتے ہیں جو قرآن کی صیح اور محکم آیات کے خلاف ہوتے ہیں، فتنے کی تلاش کے لیے اور اپنے خیال میں اس کی اصل مراد تلاش کرنے کے لیے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو ”اُولُوا الْاَلْبَابِ“ تک پڑھا اور پھر فرمایا: ”جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں تو سمجھ لو کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا ہے، سو تم ان سے بچو۔“[بخاری، التفسیر، باب: «منہ آیات محکمات» : ۴۵۴۷ ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن میں جھگڑنا کفر ہے۔“[أبو داوٗد، السنۃ، باب النہی عن الجدال: ۴۶۰۳، عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ، صحیح ] پس ضروری ہے کہ قرآن کا جو حصہ محکم ہے اس پر عمل کیا جائے اور جو متشابہ ہے اس پر جوں کا توں ایمان رکھا جائے اور تفصیلات سے بحث نہ کی جائے۔ (فتح البیان، ابن کثیر)
➍ وَ مَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ: اکثر ائمہ لفظ ”اللّٰهُ“ پر وقف کر کے ”وَ الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ“ سے نیا کلام شروع سمجھتے ہیں، یعنی متشابہات کی اصل مراد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور راسخ فی العلم لوگ کہتے ہیں کہ محکم و متشابہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں، ہم متشابہات کی اصل مراد نہ جانتے ہوئے بھی ان کے من عند اللہ ہونے پر ایمان رکھتے ہیں جبکہ کچھ ائمہ کا کہنا ہے: ”وَ الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ“ کا لفظ ”اللّٰهُ“ پر عطف ہے، یعنی اہل زیغ متشابہ آیات کا پیچھا فتنے کی تلاش کے لیے اور ان سے فاسد معنی مراد لینے کے لیے کرتے ہیں اور ایسے معنی نکالتے ہیں جو قرآن وحدیث کی نصوص کے خلاف ہوتے ہیں، حالانکہ ان کا اصل معنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے یا پختہ علم والے جو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے، اس لیے ان کا ایسا معنی مراد ہو ہی نہیں سکتا جو دوسری آیات و احادیث کے خلاف ہو۔
➎ وَ مَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ: ”الْاَلْبَابِ“” لُبٌّ “ کی جمع ہے، جس کا معنی خالص عقل ہے۔ (راغب) جس عقل میں خواہش پرستی، بدعت یا شرک کی آمیزش ہو وہ ” لُبٌّ “ نہیں کہلاتی۔ مقصد یہ ہے کہ متشابہ کے اصل معنی تک رسائی کی توفیق اہل علم کو بھی ہوتی ہے مگر صرف ان اہل علم کو جن کی عقل ہر قسم کی خواہش پرستی، بدعت اور شرک سے پاک ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لیے دعا فرمائی: [ اَللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ وَ عَلِّمْهُ التَّأْوِيْلَ ]”اے اللہ! اسے دین میں سمجھ عطا فرما اور اسے تاویل کا علم عطا فرما۔“[مستدرک حاکم: 534/3، ح: ۶۲۸۰ مسند أحمد: 266/1، ح ۲۴۰۱، صحیح ] معلوم ہوا تاویل کا علم راسخ فی العلم لوگوں کو بھی ہوتا ہے۔
➏ احسن البیان میں ہے، تاویل کے ایک معنی تو ہیں کسی چیز کی اصل حقیقت، اس معنی کے لحاظ سے ”اِلَّا اللّٰهُ“ پر وقف ضروری ہے، کیونکہ ہر چیز کی اصل حقیقت واضح طور پر اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ تاویل کے دوسرے معنی ہیں، کسی چیز کی تفسیر اور بیان و توضیح، اس اعتبار سے” اِلَّا اللّٰهُ “ پر وقف کے بجائے ” وَ الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ “ پر بھی وقف کیا جا سکتا ہے، کیونکہ مضبوط علم والے بھی صحیح تفسیر و توضیح کا علم رکھتے ہیں۔ تاویل کے یہ دونوں معنی قرآن کریم کے استعمال سے ثابت ہیں۔ (ملخص از ابن کثیر)