(آیت 4،3) ➊ یہاں ”الْكِتٰبَ“ سے مراد قرآن مجید ہے، گویا کتاب کامل یہی ہے۔ الف لام عہد کا ہونے کی مناسبت سے ”یہ کتاب“ ترجمہ کیا ہے۔” نَزَّلَ “ کا معنی آہستہ آہستہ اتارنا ہے۔ دوسری آسمانی کتابوں کے برعکس قرآن تیئیس(۲۳) برس میں مکمل نازل ہوا۔ اس کی حکمتوں کے لیے دیکھیے سورۂ فرقان (۳۲)۔ ”بِالْحَقِّ“ سے اس کا سچا اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہونا مراد ہے۔
➋ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ: اس کے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پہلی کتابوں میں جو خبریں اور بشارتیں مذکور ہیں اس میں بھی وہی خبریں اور بشارتیں ہیں، اگر یہ اللہ کی طرف سے نہ ہوتیں تو ان میں بہت اختلاف ہوتا۔ ایک خبر یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری رسول بنا کر بھیجے گا اور بشارت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ ان پر قرآن نازل فرمائے گا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۱۵۷) اور سورۂ صف (۶) تو جب تم ان کتابوں کو مانتے ہو جن کی تصدیق ہو رہی ہے تو تصدیق کرنے والی کتاب کو بھی مانو۔ (ابن کثیر، رازی)
➌ وَ اَنْزَلَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِيْلَ: تورات سے مراد وہ کتاب ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی اور انجیل سے مراد وہ کتاب ہے جو عیسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی۔ اس وقت یہ دونوں کتابیں اصل شکل میں موجود نہیں ہیں۔ تورات بائبل کے عہد قدیم کی پہلی پانچ کتابوں کا نام ہے اور انجیل بائبل کے عہد جدید کی پہلی چار کتابوں میں متفرق طور پر درج ہے۔ یہود و نصاریٰ نے انھیں بڑی حد تک بدل ڈالا ہے اور ان میں اپنی طرف سے تشریحات ملا کر خلط ملط کر دیا ہے۔ یہ کتابیں پہلے زمانے میں لوگوں کے لیے ہدایت کا کام کرتی تھیں، مگر جب ان کے اندر باطل شامل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے صحیح اور غلط میں فرق کرنے والی کتاب قرآن مجید اتاری اور اسی لحاظ سے اس کا نام ” الْفُرْقَانَ “ رکھا۔ اب اسے سچا مانے بغیر ہدایت حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ اس میں نازل شدہ آیات کا انکار کرنے والوں کے لیے بہت سخت عذاب ہے اور اللہ پر یہ کچھ مشکل نہیں، وہ سب پر غالب بھی ہے اور انتقام لینے والا بھی ہے۔