تفسير ابن كثير



صلوۃ خوف کے مسائل ٭٭

نماز خوف کی کئی قسمیں مختلف صورتیں اور حالتیں ہیں، کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ دشمن قبلہ کی طرف کبھی دشمن دوسری جانب ہوتا ہے، نماز بھی کبھی چار رکعت ہوتی ہے کبھی تین رکعت جیسے مغرب اور فجر کی دو صلوٰۃ سفر، کبھی جماعت سے ادا کرنی ممکن ہوتی ہے کبھی لشکر اس طرح باہم گتھے ہوئے ہوتے ہیں کہ نماز با جماعت ممکن ہی نہیں ہوتی۔

بلکہ الگ الگ قبلہ کی طرف اور غیر قبلہ کی طرف پیدل اور سوار جس طرح ممکن ہو پڑھی جاتی ہے بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے جو جائز بھی ہے کہ دشمنوں کے حملوں سے بچتے بھی جائیں ان پر برابر حملے بھی کرتے جائیں اور نماز بھی ادا کرتے جائیں، ایسی حالت میں صرف ایک رکعت ہی نماز پڑھی جاتی ہے جس کے جواز میں علماء کا فتویٰ ہے اور دلیل سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے جو اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں بیان ہو چکی ہے

عطا، جابر، حسن، مجاہد، حکم، قتادہ، حماد، طاؤس، ضحاک، محمد بن نصر، مروزی، ابن حزم رحمہ اللہ علیہم اجمعین کا یہی فتویٰ ہے، صبح کی نماز میں ایک ہی رکعت اس حالت میں رہ جاتی ہے، اسحٰق راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایسی دوڑ دھوپ کے وقت ایک ہی رکعت کافی ہے۔

ارشاد ہے ادا کر لے اگر اس قدر پر بھی قادریہ نہ ہو تو سجدہ کر لے یہ بھی ذکر اللہ ہے، اور لوگ کہتے ہیں صرف ایک تکبیر ہی کافی ہے لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ ایک سجدہ اور ایک تکبیر سے مراد بھی ایک رکعت ہو۔ جیسے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا فتویٰ ہے اور یہی قول ہے جابر بن عبداللہ، عبداللہ بن عمر کعب وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا۔ سدی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں۔

لیکن جن لوگوں کا قول صرف ایک تکبیر کا ہی بیان ہوا ہے اس کا بیان کرنے والے اسے پوری رکعت پر محمول نہیں کرتے بلکہ صرف تکبیر ہی جو ظاہر ہے مراد لیتے ہیں جیسے کہ اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔

امیر عبدالوہاب بن بخت مکی رحمہ اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو اسے اپنے نفس میں بھی نہ چھوڑے یعنی نیت ہی کر لے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ (‏‏‏‏لیکن صرف نیت کے کر لینے یا صرف اللہ اکبر کہہ لینے پر اکتفا کرنے یا صرف ایک ہی سجدہ کر لینے کی کوئی دلیل قرآن حدیث سے نظر سے نہیں گذری۔ واللہ اعلم مترجم)

بعض علماء نے ایسے خاص اوقات میں نماز کو تاخیر کر کے پڑھنے کی رخصت بھی دی ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق میں سورج ڈوب جانے کے بعد ظہر عصر کی نماز پڑھی تھی پھر مغرب عشاء، [سنن ترمذي:179،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

پھر اس کے بعد بنو قریظہ کی جنگ کے دن ان کی طرف جنہیں بھیجا تھا انہیں تاکید کر دی تھی کہ تم میں سے کوئی بھی بنو قریظہ تک پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز نہ پڑھے یہ جماعت ابھی راستے میں ہی تھی تو عصر کا وقت آ گیا۔

بعض نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس فرمان سے صرف یہی تھا کہ ہم جلدی بنو قریظہ پہنچیں نہ یہ کہ نماز کا وقت ہو جائے تو بھی نماز نہ پڑھیں چنانچہ ان لوگوں نے تو راستے میں ہی بروقت نماز ادا کرلی اوروں نے بنوقریظہ پہنچ کر نماز پڑھی جبکہ سورج غروب ہو چکا تھا۔ جب اس بات کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو آپ نے دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کو بھی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی۔ [صحیح بخاری:4119] ‏‏‏‏

ہم نے اس پر تفصیلی بحث اپنی کتاب السیرۃ میں کی ہے اور اسے ثابت کیا ہے کہ صحیح بات کے قریب وہ جماعت تھی جنہوں نے وقت پر نماز ادا کر لی گو دوسری جماعت بھی معذور تھی، مقصود یہ ہے کہ اس جماعت نے جہاد کے موقعہ پر دشمنوں پر تاخت کرتے ہوئے ان کے قلعے کی طرف یورش جاری رکھتے ہوئے نماز کو مؤخر کر دیا، دشمنوں کا یہ گروہ ملعون یہودیوں کا تھا جنہوں نے عہذ توڑ دیا تھا اور صلح کے خلاف کیا تھا۔

لیکن جمہور کہتے ہیں صلوٰۃ خوف کے نازل ہونے سے یہ سب منسوخ ہو گیا یہ واقعات اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کے ہیں صلوۃ خوف کے حکم کے بعد اب جہاد کے وقت نماز کو وقت سے ٹالنا جائز نہیں رہا۔

سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی یہی ظاہر ہے جسے شافعی رحمہ اللہ نے مروی کیا ہے، لیکن صحیح بخاری کے باب «‏‏‏‏الصلوۃ عند منا ھضتہ الحصون» میں ہے کہ اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر فتح کی تیاری ہو اور نماز با جماعت کا امکان نہ ہو تو ہر شخص الگ الگ اپنی اپنی نماز اشارے سے ادا کر لے۔

اگر یہ بھی نہ ہو سکتا ہو تو نماز میں تاخیر کر لیں یہاں تک کہ جنگ ختم ہو یا امن ہو جائے اس وقت دو رکعتیں پڑھ لیں اور اگر امن نہ ملے تو ایک رکعت ادا کر لیں صرف تکبیر کا کہہ لینا کافی نہیں۔ ایسا ہو تو نماز کو دیر کر کے پڑھیں جبکہ اطمینان نصیب ہو جائے مکحول رحمہ اللہ کا فرمان بھی یہی ہے

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تستر کے قلعہ کے محاصرے میں میں موجود تھا صبح صادق کے وقت دست بدست جنگ شروع ہوئی اور سخت گھمسان کا رن پڑا ہم لوگ نماز نہ پڑھ سکے اور برابر جہاد میں مشغول رہے جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں قلعہ پر قابض کر دیا اس وقت ہم نے دن چڑھے نماز پڑھی۔

اس جنگ میں ہمارے امام سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ تھے سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس نماز کے متبادل ساری دنیا کی تمام چیزیں بھی مجھے خوش نہیں کر سکتیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ اس کے بعد جنگ خندق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازوں کو تاخیر کرنے کا ذکر کرتے ہیں پھر بنو قریظہ والا واقعہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ تم بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز نہ پڑھنا وارد کرتے ہیں گویا امام ہمام امام بخاری رحمہ اللہ اسی سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایسی اشد لڑائی اور پورے خطرے اور قرب فتح کے موقع پر اگر نماز مؤخر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔

سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ والا فتح تستر کا واقعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے کا ہے اور یہ منقول نہیں کہ خلیفۃ المسلمین نے یا کسی اور صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کیا ہو اور یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ خندق کے موقع پر بھی صلوٰۃ خوف کی آیتیں موجود تھیں اس لیے کہ یہ آیتیں غزوہ ذات الرقاع میں نازل ہوئی ہیں اور یہ غزوہ غزوہ خندق سے پہلے کا ہے اور اس پر جمہور علماء سیر و مغازی کا اتفاق ہے، محمد بن اسحٰق، موسیٰ بن عقبہ واقدی، محمد بن سعد، کاتب واقدی اور خطیفہ بن خیاط رحمہ اللہ علیہم وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں،۔

ہاں امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ غزوہ ذات الرقاع خندق کے بعد ہوا تھا بہ سبب بحوالہ حدیث سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے اور یہ خود خیبر میں ہی آئے تھے «وَاللهُ اَعْلَمُ»، لیکن سب سے زیادہ تعجب تو اس امر پر ہے کہ قاضی ابو یوسف مزنی ابراہیم بن اسمٰعیل بن علیہ رحمہ اللہ علیہم کہتے ہیں کہ صلوۃ خوف منسوخ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ خندق میں میں دیر کر کے نماز پڑھنے سے۔

یہ قول بالکل ہی غریب ہے اس لیے کہ غزوہ خندق کے بعد کی صلوۃ خوف کی حدیثیں ثابت ہیں، اس دن کی نماز کی تاخیر کو مکحول اور اوزاعی رحمہ اللہ علیہما کے قول پر ہی محمول کرنا زیادہ قوی اور زیادہ درست ہے یعنی ان کا وہ قول جو بحوالہ بخاری بیان ہوا کہ قرب فتح اور عدم امکان صلوۃ خوف کے باوجود تاخیر جائز ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

آیت میں حکم ہوتا ہے کہ جب تو انہیں باجماعت نماز پڑھائے۔ یہ حالت پہلی کے سوا ہے اس وقت یعنی انتہائی خوف کے وقت تو ایک ہی رکعت جائز ہے اور وہ بھی الگ، الگ، پیدل سوار قبلہ کی طرف منہ کر کے یا نہ کر کے، جس طرح ممکن ہو، جیسے کہ حدیث گذر چکی ہے۔ یہ امامت اور جماعت کا حال بیان ہو رہا ہے جماعت کے واجب ہونے پر یہ آیت بہترین اور مضبوط دلیل ہے کہ جماعت کی وجہ سے بہت کمی کر دی گئی۔

اگر جماعت واجب نہ ہوتی تو صرف ایک رکعت جائز نہ کی جاتی۔ بعض نے اس سے ایک اور استدلال بھی کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس میں چونکہ یہ لفظ ہیں کہ جب تو ان میں ہو اور یہ خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے تو معلوم ہوا کہ صلوۃ خوف کا حکم آپ کے بعد منسوخ ہے، یہ استدلال بالکل ضعیف ہے۔

یہ استدلال تو ایسا ہی ہے جیسا استدلال ان لوگوں کا تھا جو زکوٰۃ کو خلفائے راشدین سے روک بیٹھے تھے اور کہتے تھے کہ قرآن میں ہے «‏‏‏‏خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ» ‏‏‏‏ [9-التوبة:103] ‏‏‏‏ یعنی ” تو ان کے مالوں سے زکوٰۃ لے جس سے تو انہیں پاک صاف کرے اور تو ان کے لیے رحمت کی دعا کر تیری دعا ان کے لیے باعث تسکین ہے “۔

تو ہم آپ کے بعد کسی کو زکوٰۃ نہ دیں گے بلکہ ہم آپ اپنے ہاتھ سے خود جسے چاہیں دیں گے اور صرف اسی کو دیں گے جس کو دعا ہمارے لیے سبب سکون بنے۔ لیکن یہ استدلال ان کا بے معنی تھا اسی لیے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے رد کر دیا اور انہیں مجبور کیا کہ یہ زکوٰۃ ادا کریں بلکہ ان میں سے جن لوگوں نے اسے روک لیا تھا ان سے جنگ کی۔ آئیے ہم آیت کی صفت بیان کرنے سے پہلے اس کا شان نزول بیان کر دیں۔

ابن جریر میں ہے کہ بنو نجار کی ایک قوم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ہم برابر اِدھر اُدھر آمد و رفت کیا کرتے ہیں، ہم نماز کس طرح پڑھیں تو اللہ عزوجل نے اپنا یہ قول نازل فرمایا «‏‏‏‏وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ» ‏‏‏‏ [4-النساء:101] ‏‏‏‏

اس کے بعد سال بھر تک کوئی حکم نہ آیا پھر جبکہ آپ ایک غزوے میں ظہر کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو مشرکین کہنے لگے افسوس کیا ہی اچھا موقعہ ہاتھ سے جاتا رہا کاش کہ نماز کی حالت میں ہم یکبارگی ان پر حملہ کر دیتے۔

اس پر بعض مشرکین نے کہا یہ موقعہ تو تمہیں پھر بھی ملے گا اس کے تھوڑی دیر بعد ہی یہ دوسری نماز [ یعنی نماز عصر ] ‏‏‏‏ کے لیے کھڑے ہوں گے،

لیکن اللہ تعالیٰ نے عصر کی نماز سے پہلے اور ظہر کی نماز کے بعد «إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا» ‏‏‏‏ [4-النساء:101] ‏‏‏‏ والی پوری دو آیتوں تک نازل فرما دیں اور کافر ناکام رہے خود اللہ تعالیٰ و قدوس نے صلوۃ خوف کی تعلیم دی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:10319:ضعیف] ‏‏‏‏ گویہ سیاق نہایت ہی غریب ہے لیکن اسے مضبوط کرنے والی اور روایتیں بھی ہیں۔

سیدنا ابوعیاش زرقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عسفان میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے اور مشرکین کے لشکر کے سردار تھے یہ لوگ ہمارے سامنے پڑاؤ ڈالے تھے تب ہم نے قبلہ رخ، ظہر کی نماز جب ہم نے ادا کی تو مشرکوں کے منہ میں پانی بھر آیا اور وہ کہنے لگے افسوس ہم نے موقعہ ہاتھ سے کھو دیا وقت تھا کہ یہ نماز میں مشغول تھے اِدھر ہم ان پر دفعتاً دھاوا بول دیتے

پھر ان میں کے بعض جاننے والوں نے کہا خیر کوئی بات نہیں اس کے بعد ان کی ایک اور نماز کا وقت آ رہا ہے اور وہ نماز تو انہیں اپنے بال بچوں سے بلکہ اپنی جانوں سے بھی زیاہ عزیز ہے اس وقت سہی۔ پس ظہر عصر کے درمیان اللہ عزوجل نے جبرائیل علیہ السلام کو نازل فرمایا اور «وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ» [4-النساء:102] ‏‏‏‏ اتاری۔

چنانچہ عصر کی نماز کے وقت ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہم نے ہتھیار سجا لیے اور اپنی دو صفوں میں سے پہلی صف آپ کے ساتھ سجدے میں گئی اور دوسری صف کھڑی کی کھڑی ان کی نگہبانی کرتی رہی جب سجدوں سے فارغ ہو کر یہ لوگ کھڑے ہو گئے تو اب دوسری صف والے سجدے میں گئے جب یہ دونوں سجدے کر چلے تو اب پہلی صف والے دوسری صف کی جگہ چلے گئے اور دوسری صف والے پہلی صف والوں کی جگہ آ گئے، پھر قیام رکوع اور قومہ سب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ساتھ ادا کیا اور جب آپ سجدے میں گئے تو صف اول آپ کے ساتھ سجدے میں گئی اور دوسری صف والے کھڑے ہوئے پہرہ دیتے رہے جب یہ سجدوں سے فارغ ہو گئے اور التحیات میں بیٹھے تب دوسری صف کے لوگوں نے سجدے کئے اور التحیات میں سب کے سب ساتھ مل گئے اور سلام بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب نے ایک ساتھ پھیرا۔ صلوٰۃ خوف ایک بار تو آپ نے یہاں عسفان میں پڑھی اور دوسری مرتبہ بنو سلیم کی زمین میں۔

یہ حدیث مسند احمد ابوداؤد اور نسائی میں بھی ہے۔ [] ‏‏‏‏ [مسند احمد:59/4،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ اس کی اسناد صحیح ہے اور شاہد بھی بکثرت ہیں بخاری میں بھی یہ روایت اختصار کے ساتھ ہے اور اس میں ہے باوجود یکہ سب لوگ نماز میں تھے لیکن ایک دوسرے کی چوکیداری کر رہے تھے۔ [صحیح بخاری:944] ‏‏‏‏

ابن جریر میں ہے کہ سیدنا سلیمان بن قیس یشکری رضی اللہ عنہ نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا نماز کے قصر کرنے کا حکم کب نازل ہوا؟ تو آپ نے فرمایا قریشیوں کا ایک قافلہ شام سے آ رہا تھا ہم اس کی طرف چلے۔ وادی نخل میں پہنچے تو ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہچ گیا اور کہنے لگا کیا آپ مجھ سے ڈرتے نہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں اس نے کہا آپ کو مجھ سے اس وقت کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ مجھے تجھ سے بچا لے گا پھر تلوار کھینچ لی اور ڈرایا دھمکایا، پھر کوچ کی منادی ہوئی اور آپ ہتھیار سجا کر چلے۔

پھر اذان ہوئی اور صحابہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ایک حصہ آپ کے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا اور دوسرا حصہ پہرہ دے رہا تھا جو آپ کے متصل تھے وہ دو رکعت آپ کے ساتھ پڑھ کر پیچھے والوں کی جگہ چلے گئے اور پیچھے والے اب آگے بڑھ آئے اور ان اگلوں کی جگہ کھڑے ہو گئے انہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعت ہوئیں اور سب کی دو دو ہوئیں
اور اللہ تعالیٰ نے نماز کی کمی کا اور ہتھیار لیے رہنے کا حکم نازل فرمایا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:10330] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے کہ جو شخص تلوار تانے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوا تھا یہ دشمن کے قبیلے میں سے تھا اس کا نام غورث بن حارث تھا جب آپ نے اللہ کا نام لیا تو اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی آپ نے تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس سے کہا اب تو بتا کہ تجھے کون بچائے گا تو وہ معافی مانگنے لگا کہ مجھ پر آپ رحم کیجئے۔

آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کے ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہے؟ اس نے کہا یہ تو نہیں ہاں میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ سے لڑوں گا نہیں اور ان لوگوں کا ساتھ نہ دوں گا جو آپ سے برسر پیکار ہوں آپ نے اسے معافی دی۔
جب یہ اپنے قبیلے والوں میں آیا تو کہنے لگا روئے زمین پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی شخص نہیں۔ [مسند احمد:390/3:صحیح] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ یزید فقیر نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سفر میں جو دو رکعت ہیں کیا یہ قصر کہلاتی ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ پوری نماز ہے قصر تو بوقت جہاد ایک رکعت ہے پھر صلوۃ خوف کا اسی طرح ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ کے سلام کے ساتھ آپ کے پیچھے والوں نے اور ان لوگوں نے سلام پھیرا اور اس میں دونوں حصہ فوج کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھنے کا بیان ہے

پس سب کی ایک ایک رکعت ہے پھر صلوۃ خوف کا اسی طرح ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ کے سلام کے ساتھ آپ کے پیچھے والوں نے ان لوگوں نے سلام پھیرا اور اس میں دونوں حصہ فوج کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھنے کا بیان ہے پس سب کی ایک ایک رکعت ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:5898/4:حسن] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ ایک جماعت آپ کے پیچھے صف بستہ نماز میں تھی اور ایک جماعت دشمن کے مقابل تھی پھر ایک رکعت کے بعد آپ کے پیچھے والے اگلوں کی جگہ آ گئے اور پہ پیچھے آ گئے۔ یہ حدیث بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ [مسند احمد:298/3:صحیح] ‏‏‏‏

ایک اور حدیث جو بروایت سالم عن ابیہ مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ پھر کھڑے ہو کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک ایک رکعت اپنی اپنی ادا کر لی۔ [صحیح بخاری:4133] ‏‏‏‏

اس حدیث کی بھی بہت سی سندیں اور بہت سے الفاظ ہیں حافظ ابوبکر بن مردویہ رحمہ اللہ نے ان سب کو جمع کر دیا، اور اسی طرح ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی، ہم اسے کتاب احکام کبیر میں لکھنا چاہتے ہیں ان شاءاللہ۔

خوف کی نماز میں ہتھیار لیے رہنے کا حکم بعض کے نزدیک توبطور وجوب کے ہے کیونکہ آیت کے ظاہری الفاظ ہیں امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے اور اسی کی تائید اس آیت کے پچھلے فقرے سے بھی ہوتی ہے کہ بارش یا بیماری کی وجہ سے ہتھیار اتار رکھنے میں تم پر گناہ نہیں اپنا بچاؤ ساتھ لیے رہو، یعنی ایسے تیار رہو کہ وقت آتے ہی بے تکلف وبے تکلیف ہتھیار سے آراستہ ہو جاؤ۔ اللہ نے کافروں کے لیے اہانت والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.