(آیت 276) ➊ يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا: یعنی سود کا مال بظاہر جتنا بھی بڑھ جائے حقیقت میں نہیں بڑھتا، فرمایا: «وَ مَاۤ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِيْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ»[الروم: ۳۹ ]”اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سود خواہ کتنا ہی بڑھ جائے انجام اس کا قلت ہی ہو گا۔“[أحمد: 424/1، ح: ۴۰۲۵، عن ابن مسعود و صححہ محققہ و وافقہ الألبانی فی صحیح ابن ماجہ ]
وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سودی مال میں خیر و برکت عطا نہیں فرماتا، چنانچہ سود خور پر دنیا بھی لعنت بھیجتی ہے اور آخرت میں بھی اسے وہ سزا ملے گی جو کسی دوسرے مجرم کو نہیں ملے گی۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھاتا ہے اور ان میں خیر و برکت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص پاک کمائی میں سے ایک کھجور بھی صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ پاک مال ہی کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے، پھر اسے صدقہ کرنے والے کے لیے اس طرح پالتا پوستا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ صدقہ (بڑھ کر) پہاڑ کی طرح ہو جاتا ہے۔“[بخاری، الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب: ۱۴۱۰۔ مسلم: ۱۰۱۴، عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ]
➋ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ: یعنی مال دار ہو کر محتاج کو قرض بھی نہ دے جب تک سود نہ رکھ لے، یہ نعمت کی سخت ناشکری ہے۔ (موضح)