(آیت 268) ➊ اَلْفَحْشَآءُ: کوئی بھی قول یا فعل جس میں بہت بڑی قباحت ہو۔ (راغب) مثلاً زنا، قوم لوط کا عمل وغیرہ، یہاں بہت قبیح درجے کا بخل مراد ہے۔
➋ اوپر کی آیت میں عمدہ مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی تھی، اب یہاں شیطان کے وسوسے سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔(رازی)
➌ اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ: یعنی شیطان انسان کے دل میں وہم اور وسوسے پیدا کرتا رہتا ہے کہ اگر نیک کاموں میں خرچ کرو گے تو فقیر ہو جاؤ گے اور ”فَحْشَاءُ“ یعنی شرمناک بخل کی ترغیب دیتا اور اس پر اکساتا رہتا ہے۔ ”فَحْشَاءُ“ سے بے حیائی اور بدکاری کے کام بھی مراد ہو سکتے ہیں کہ شیطان ان میں مال صرف کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ صدقہ و خیرات تمھارے گناہوں کا کفارہ بھی ہو گا اور اس پر تمھیں کئی گنا زیادہ اجر بھی ملے گا اور مال میں برکت بھی ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر روز جب بندے صبح کرتے ہیں تو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک دعا کرتا ہے، اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کی جگہ اور دے اور دوسرا بد دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! (ہاتھ) روکنے والے کے مال کو تلف کر دے۔“[بخاري، الزكاة، باب قول الله تعالٰي: «فأما من أعطي…»: ۱۴۴۲، عن أبي هريرة رضي الله عنه] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَّالٍ ]”صدقہ مال کو کچھ بھی کم نہیں کرتا۔“[مسلم، البروالصلۃ، باب استحباب العفو والتواضع: ۲۵۸۸، عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ]