(آیت 258) ➊ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ: یعنی اس بادشاہ کے رب تعالیٰ کے متعلق ابراہیم علیہ السلام سے جھگڑے کی وجہ یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکومت عطا فرمائی، اس کا شکر اس نے یہ ادا کیا کہ خود رب بن بیٹھا اور جس نے اسے حکومت عطا فرمائی تھی اس کا انکار کر دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے فقیر بنا دیتا تو کبھی یہ جسارت نہ کرتا۔
➋ ابراہیم علیہ السلام عراق کے رہنے والے تھے، ان کے زمانے میں عراق کے اندر شرک تقریباً اپنی ساری صورتوں کے ساتھ موجود تھا، بتوں کو وہ پوجتے تھے، سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش وہ کرتے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ بادشاہ وقت کو بھی رب مانتے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام کے ذمے ان سب صورتوں کی تردید کرکے لوگوں کو اکیلے رب کی عبادت کی دعوت دینا تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے والد اور قوم کو بت پرستی چھوڑ کر ایک رب کی عبادت کی دعوت دی، نتیجے میں گھر سے نکلنا پڑا، پھر نہایت حکیمانہ طریقے سے سورج، چاند اور ستاروں کا رب نہ ہونا ایسا واضح کیا کہ قوم لاجواب ہو گئی۔ (دیکھیے انعام: ۷۶ تا ۸۲) نتیجے میں قوم کے جھگڑے اور سورج، چاند اور ستاروں کے غضب کا نشانہ بننے کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے سمجھا کہ محض نصیحت سے بتوں کی بے بسی ماننے پر یہ لوگ تیار نہیں تو میلے والے دن ان کے بڑے بت کو چھوڑ کر باقی سارے بت توڑ دیے۔ تفتیش ہوئی، ابراہیم علیہ السلام مجرم قرار پائے، اس موقع پر ساری قوم کے سامنے بتوں کی بے بسی ایسی واضح فرمائی کہ وہ اپنے دلوں میں مان گئے کہ ظالم وہ خود ہی ہیں، ابراہیم(علیہ السلام) کا کچھ قصور نہیں۔ اب حق کو قبول کرنے کے بجائے الٹاکہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو۔ (دیکھیے انبیاء: ۵۱ تا ۷۰) اب ظاہر ہے کہ عوام جتنے بھی ہوں کسی کو سزا دینا تو حکومت کا کام ہے، اس لیے انھیں وقت کے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا، وہ اپنی سلطنت میں بت پرستی، ستارہ پرستی کو برداشت کرتا تھا، بلکہ اس کی پشت پناہی کرتا تھا، کیونکہ وہ خود بھی مشرک تھا اور اپنے رب ہونے کا بھی دعویدار تھا۔ اس موقع پر بادشاہ کے ساتھ یہ مناظرہ ہوا، جس میں لاجواب ہو کر اس نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھنکوا دیا۔
➌ یہ واقعہ اور بعد والے دونوں واقعات اس بات کی مثال اور دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو کس طرح اندھیرے سے روشنی کی طرف لاتا ہے اور طاغوت اپنے دوستوں کو کس طرح روشنی سے اندھیرے کی طرف لے جاتے ہیں۔
➍ ابراہیم علیہ السلام نے جب اس بادشاہ کے رب ہونے سے انکار کیا تو اس نے پوچھا: ”تمھارا رب کون ہے؟“ آپ نے فرمایا: ”میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔“ اس نے کہا: ”میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔“ بعض تابعین سے منقول ہے کہ اس نے دو قیدی منگوائے، ایک کو قتل کر دیا، ایک کو چھوڑ دیا اورکہا: ”دیکھو! انھیں زندہ رکھنا یا مارنا میرے ہاتھ میں ہے۔“ تابعین کی بات اسرائیلی روایت ہی ہو سکتی ہے کیونکہ وہ خود تو اس وقت موجود نہیں تھے اور اس کی ضرورت اس وقت ہے جب وہ بادشاہ متقی اور ہمیشہ سچ بولنے والا ہو۔ ایک جھوٹا شخص کوئی غلط بات کہے تو اسے تاویل کے ساتھ صحیح ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جو شخص یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں رب ہوں، اسے یہ دعویٰ کرنے میں کیا چیز مانع ہے کہ میں ہی سب کو زندہ کرتا ہوں اور میں ہی مارتا ہوں۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ کج بحثی پر اترا ہوا ہے تو پہلی دلیل چھوڑ کر دوسری دلیل سورج والی دی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے پہلی دلیل چھوڑی نہیں، بلکہ اس کے ذریعے سے اس کے منہ سے اس دعویٰ کا اقرار کروا لیا کہ میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ اب اس دعویٰ پر دوسری دلیل کی بنیاد رکھی کہ جب تم میں اتنی قوت ہے کہ تمھی سب کو پیدا کرتے ہو اور تمھی مارتے ہو تو اس کے مقابلے میں ایک معمولی سا کام کرکے دکھاؤ، یہ کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے، جب سارا اختیار تمھارے پاس ہے تو سورج کو مغرب سے طلوع کرکے دکھا دو، اس پر وہ بے ایمان حیرت زدہ ہو کر بالکل لاجواب ہو گیا اور ایسے ظالموں کو اللہ تعالیٰ بھی راہِ راست پر آنے کی توفیق نہیں دیتا۔
➎ نمرود کی ناک میں مچھر کے گھسنے اور چار سو سال تک ہتھوڑوں سے اپنے آپ کو پٹوانے کے واقعات نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں نہ کسی صحابی سے۔