(آیت 257) ➊ قرآن پاک میں جہاں بھی ”الظُّلُمٰتِ“ اور ”النُّوْرِ“ کے الفاظ آئے ہیں ان سے مراد کفر و ایمان ہی ہے، ما سوائے سورۂ انعام (۱) «وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ» کہ وہاں رات اور دن مراد ہیں۔ (رازی) اس آیت میں ”النُّوْرِ“ کا لفظ بصیغہ واحد اور ”الظُّلُمٰتِ“ کا لفظ بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ حق ہمیشہ اور ہر جگہ ایک ہی ہے اور کفر و شرک اور جہالت کی قسموں کا شمار نہیں، وہ سب باطل ہیں۔ (ابن کثیر) آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان پہلے کافر ہوتا ہے اور ایمان لانے کے بعد کفر کی تاریکی سے نکل کر ایمان کی روشنی میں داخل ہوتا ہے، مگر یہ معنی مراد نہیں بلکہ جو شخص ابتدا ہی سے مسلمان ہے اس کے حق میں بھی توفیق و رحمت کے اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کفر کی تاریکی سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لے لیا ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں ہے: «لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا»[یونس: ۹۸ ]”جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے ذلت کا عذاب دنیا کی زندگی میں ہٹا دیا۔“ حالانکہ ان پر تاحال عذاب نازل نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح فرمایا: «وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ»[النحل: ۷۰ ]”اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو سب سے نکمّی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔“ حالانکہ وہ پہلے کبھی نکمّی عمر میں نہ تھے جس کی طرف دوبارہ لوٹائے گئے ہوں۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے سنا کہ اس نے کہا: ”أَشْهَدُ أَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ خَرَجَ مِنَ النَّارِ ]”یہ شخص آگ سے نکل آیا۔“[مجمع الزوائد:۳۳۴/1 ] حالانکہ وہ پہلے آگ میں نہیں تھا۔ یوسف علیہ السلام نے کہا: «اِنِّيْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ» [یوسف: ۳۷ ]”میں نے ان لوگوں کی ملت چھوڑ دی جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے“ حالانکہ یوسف علیہ السلام کبھی ان کی ملت میں داخل نہیں تھے۔ الغرض! قرآن و حدیث میں اس قسم کے محاورات بکثرت مذکور ہیں، خوب سمجھ لو۔ (رازی)
➋ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ: یعنی یہ کافر اور ان کے باطل معبود سب جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۴) اور سورۂ انبیاء(۹۸)۔