(آیت233) ➊ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ: نکاح و طلاق کے بعد اس آیت میں رضاعت (بچے کو دودھ پلانے کے مسائل) کا بیان ہے، کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک عورت کو طلاق ہو جائے، یا اس کے شوہر کا انتقال ہو جائے اور اس کی گود میں دودھ پیتا بچہ ہو۔ اس سلسلے میں ماؤں کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بچے کودودھ پلانا ماں پر فرض ہے، خصوصاً جب بچہ اس کے علاوہ کسی دوسری عورت کا دودھ پینے کے لیے تیار نہ ہو۔ (دیکھیے سورۂ طلاق:۶) نیز اس سے دو باتیں اور بھی معلوم ہوئیں، ایک یہ کہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے، لہٰذا اس دو سال کی عمر کے بعد اگر کوئی بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے تو حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہو گی۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”صرف اسی رضاعت سے حرمت ثابت ہو گی جو پستان سے پینے کے زمانے میں انتڑیوں کو پھاڑے اور دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے ہو۔“[ ترمذی، الرضاع، باب ما جاء ما ذکر أن الرضاعۃ …: ۱۱۵۲، و قال حسن صحیح] ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہاسے بھی اس کی ہم معنی حدیث ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: [فَاِنَّمَا الرَّضَاعَۃُ مِنَ الْمَجَاعَۃِ][ بخاری، الشہادات، باب الشہادۃ علی الأنساب …: ۲۶۴۷]”یقینًا رضاعت وہی معتبر ہے جو (کم سنی میں) بھوک کی بنا پر ہو۔“ بعض لوگ دودھ چھڑانے کی مدت اڑھائی سال بتاتے ہیں، مگر وہ اس آیت اور دوسری آیت: «فِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ»[ لقمان: ۱۴](اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے) کے صریح خلاف ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ احقاف (۱۵) کی تفسیر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سالم کو، جسے انھوں نے بیٹوں کی طرح پالا تھا، جوان ہونے پر ابوحذیفہ کی بیوی کا دودھ پی کر ان کا رضاعی بیٹا بننے کی اجازت دی تھی۔ [ مسلم: ۲۷؍۱۴۵۳] اس لیے عائشہ رضی اللہ عنہارضاعتِ کبیر کی قائل تھیں، مگر دوسری امہات المومنین نے اسے ان سے خاص ہونے کے امکان کی وجہ سے تسلیم نہیں کیا۔ زیادہ سے زیادہ سالم رضی اللہ عنہ کے واقعہ کی طرح شدید ضرورت میں اس کی اجازت ممکن ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ دو سال کی مدت پوری کرنا ضروری نہیں، اس سے پہلے بھی بچے کا دودھ چھڑایا جا سکتا ہے۔
➋ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ: اس سے معلوم ہوا کہ دودھ پلانے والی ماں کو، جب کہ اسے طلاق ہو چکی ہو، عام معروف طریقے کے مطابق کھانا اور لباس مہیا کرنا والد پر فرض ہے۔ عام حالات میں جب کہ طلاق نہ ہوئی ہو، بیوی کا کھانا اور لباس اس کے شوہر پر ویسے ہی فرض ہے۔ نیز دیکھیے سورۂ طلاق (۶)۔
➌ لَا تُضَآرَّ: یہ ”ضَرَرٌ“ سے باب مفاعلہ کا واحد مؤنث نہی غائب مجہول کا صیغہ ہے، ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ نہی غائب معلوم بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے شیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”ماں کو تکلیف دینا یہ ہے کہ وہ مثلاً اپنے بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے مگر باپ زبردستی چھین لے، یا یہ کہ اسے دودھ پلانے پر مجبور کرے اور خرچہ نہ دے اور باپ کو تکلیف دینا یہ ہے کہ ماں بچے کا سارا بوجھ اس پر ڈال دے، یا دودھ پلانے سے انکار کر دے، یا بھاری اخراجات کا مطالبہ کرے جو باپ کی وسعت سے باہر ہوں۔“ آیت کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: ”نہ ماں بچے کی وجہ سے ضرر پہنچا کر باپ کو تکلیف دے اور نہ باپ بچے کی وجہ سے ماں کو ضرر پہنچائے۔“ پہلی صورت میں ”لَا تُضَآرَّ“صیغہ فعل مجہول کا ہو گا۔ دوسرے ترجمہ کے اعتبار سے صیغہ معروف، نتیجہ ایک ہی ہے۔
➍ وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ: یعنی اگر باپ مر جائے تو جو بھی اس کا وارث ہو اس پر فرض ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلانے والی ماں کے یہ حقوق ادا کرے۔
➎ یعنی اگر تم بچے کو اس کی ماں کے سوا کسی دوسری عورت سے دودھ پلوانا چاہو، اس لیے کہ ماں کے ساتھ سمجھوتا نہ ہو سکے، جیسا کہ فرمایا: «وَ اِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهٗۤ اُخْرٰى»[ الطلاق: ۶]”اور اگر تم آپس میں تنگی کرو تو اسے کوئی اور عورت دودھ پلا دے گی “ تو اس میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ جو معاوضہ تم دینا چاہتے ہو وہ معروف طریقے سے پورا پورا ادا کر دو۔