(آیت232) ➊ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ: معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن کا نکاح ایک شخص سے کیا، اس نے اسے طلاق دے دی، جب عدت گزر گئی تو وہ (دوبارہ) نکاح کا پیغام لے کر آیا۔ میں نے اس سے کہا، میں نے تمھارا نکاح کیا، اسے تمھاری بیوی بنایا اور تمھاری عزت افزائی کی، مگر تم نے اسے طلاق دے دی، اب تم پھر اس سے نکاح کا پیغام لے کر آ گئے ہو، اللہ کی قسم! وہ تمھارے پاس کبھی نہیں آ سکتی۔ اس شخص میں کوئی برائی نہیں تھی اور میری بہن بھی اس کے پاس جانا چاہتی تھی(لیکن میں مانع تھا) تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل فرمائی: «فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ» ”تو انھیں اس سے نہ روکو کہ وہ اپنے خاوندوں سے نکاح کر لیں۔“ تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! اب میں نکاح کر دوں گا۔ الغرض! انھوں نے اپنی بہن کا نکاح اس شخص سے کر دیا۔ [ بخاری، النکاح، باب من قال لا نکاح إلا بولی …: ۵۱۳۰ ]
➋ اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورت خود بخود اپنا نکاح نہیں کر سکتی، بلکہ ولی کی اجازت ضروری ہے۔ امام بخاری نے بھی اس آیت سے یہ استدلال فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت اپنا نکاح خود کرے، کیونکہ وہ عورت زانیہ ہے جو اپنا نکاح خود کرتی ہے۔“[ ابن ماجہ، النکاح، باب لا نکاح إلا بولی: ۱۸۸۲، عن عائشۃ رضی اللہ عنہا، و صححہ الألبانی ] اگر عورت خود اپنا نکاح کر سکتی ہوتی تو عورت کے اولیاء کو قرآن مخاطب نہ کرتا کہ ”تم ان کو مت روکو۔“
➌ اَزْوَاجَهُنَّ: اس لفظ سے جس طرح وہ خاوند مراد ہیں جن سے پہلے نکاح ہوا تھا، اسی طرح عدت گزرنے کے بعد اگر وہ کسی اور شخص سے نکاح کرنا چاہیں تو اس ہونے والے خاوند سے نکاح کرنے سے روکنا بھی منع ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”یہ حکم ہے عورتوں کے ولیوں کو کہ اس کے نکاح میں اس کی خوشی (کا خیال) رکھیں، جہاں وہ راضی ہوں وہاں کر دیں، اگرچہ اپنی نظر میں اور جگہ بہتر معلوم ہو۔“(موضح)